اسرائیل مخالف گجراتی نے نیویارک کیسے فتح کیا؟

امریکی شہر نیویارک کی تاریخ کے پہلے مسلمان، پہلے جنوبی ایشیائی مئیر کے طور پر ظہران ممدانی کا منتخب ہونا اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر ہے۔ دنیا بھر کو اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے بھی کہ یہ امریکی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا غماز ہے۔ یہ بھی کہ ظہران ممدانی کے طرز سیاست اور کمپین سٹائل کو کاپی کر کے دیگر ممالک میں بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ظہران ممدانی پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، بہت کچھ آنے والے دنوں میں کہا جائے گا۔ یہ ایک بہت پھیلا ہوا، وسیع موضوع ہے۔ ہم اس اہم واقعہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

ظہران ممدانی کے والد محمود ممدانی انڈین نژاد مسلمان پروفیسر ہیں۔ ان کا تعلق بھارتی گجرات سے ہے، یہ گجراتی ہیں یعنی ایک طرح سے میمن۔ تاہم ان کا خاندان کئی عشرے قبل کمپالا، یوگنڈا منتقل ہوگیا تھا۔ ظہران ممدانی بھی یوگنڈا میں پیدا ہوئے۔ یوگنڈا کے سابق آمر عیدی امین نے ملک سے ایشیائی باشندوں کو نکال دیا تھا تو یہ خاندان امریکا شفٹ ہوگیا، تاہم پروفیسر محمود ممدانی آج بھی یوگنڈا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ ظہران ممدانی کی والدہ مشہور بھارتی فلم ساز میرا نائر ہیں۔ مون سون ویڈنگ، سلام بمبے، نیم سیک وغیرہ ان کی مشہور فلمیں ہیں۔ میرا نائر کا تعلق بھارتی شہر اڑیسہ سے ہے۔ میرا نائر مسلمان نہیں مگر وہ معتدل اور روشن خیال فکر کی حامل ہیں اور انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اس کی مسلمان شناخت کے ساتھ ہی بڑا کیا ہے۔ ظہران ممدانی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی مسلم شناخت کے حوالے سے کسی کمپلیس کا شکار نہیں۔ خود کو فخریہ مسلمان کہتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیائی پس منظر کو بھی نہیں چھپاتے۔ صاف کہتے ہیں کہ میں بھارتی نژاد، افریقی پس منظر اور امریکی شناخت، تینوں کا امتزاج ہوں۔ ظہران ممدانی کی اہلیہ شامی عرب ہیں۔ ممدانی نے امریکا میں رہنے والے بہت سے ماڈرن لوگوں کی طرح لِو ان ریلیشن شپ یا سول میرج کے بجائے ایک باقاعدہ تقریب میں نکاح کیا اور اس کی تصاویر میڈیا کو بھی ریلیز کیں۔

ظہران ممدانی ایک سیاستدان ہیں۔ امریکا یا یورپ میں سیاست کرنے والے کسی بھی مسلمان کے لئے اینٹی اسرائیل موقف لینا خاصا مشکل ہوجاتا ہے، خاص کر جو اتنے بڑے شہر کا مئیر کا الیکشن لڑے جہاں مختلف مذاہب اور متنوع نسلی آبادیاں رہتی ہوں۔ لندن کے میئر صادق خان پاکستانی نژاد ہیں، وہ دو بار میئر بن چکے ہیں مگر صادق خان نے کبھی اپنی الیکشن کمپین میں پاکستان پس منظر کو نمایاں نہیں کیا۔ وہ پاکستانیوں کے اجتماعات میں بھی ڈرتے ججھکتے جاتے ہیں کہ کہیں انڈین یا دوسری کمیونیٹیز ناراض نہ ہو جائیں۔ صادق خان مسلمان سیاستدان ضرور ہیں مگر انہوں نے اسلامی شناخت کو شعوری طور پر پس منظر میں رکھا۔ ان کا فوکس برطانوی شہریت، قانون پسندی اور شہری مساوات پر ہے۔ وہ خود کو ایک ایشیائی مسلمان کے بجائے مین اسٹریم برٹش سیاستدان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ظہران ممدانی کے لیے اسلامی اور جنوبی ایشیائی شناخت کوئی ضمنی چیز نہیں بلکہ مرکزی سیاسی نکتہ ہے۔ انہوں نے خود کو ہمیشہ ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی، افریقی پس منظر رکھنے والا امریکی کے طور پر پیش کیا۔ ان کی مہم کی روح یہی بہت سے پس منظروں سے بننے والی شناخت تھی۔ وہ اس شناخت کو چھپانے کے بجائے طاقت میں بدلتے ہیں۔ وہ جلسوں میں وضو، مسجد کمیونٹیز، رمضان فنڈریز اور امیگرنٹس کی کہانیاں کھلے عام اپنے بیانیے میں شامل کرتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک مذہب، نسل یا ثقافت سیاست سے الگ نہیں بلکہ انسانی مساوات کی دلیل ہیں۔

ظہران ممدانی نے مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے باوجود اپنے مسلمان ہونے کو فخریہ انداز میں پیش کیا اور ساتھ ہی فلسطین کے حوالے سے مضبوط، جاندار موقف اختیار کیا۔ وہ اسرائیل کے مظالم کے شدید مخالف اور نقاد ہیں۔ ظہران ممدانی یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ اگر میئر نیویارک بنے تو شہری پولیس کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم دے دیں گے۔ یہ بہت ہی سخت اور جرأت مندانہ موقف تھا جو ظہران ممدانی نے اپنایا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ نریندرمودی کے بھی شدید ناقد ہیں اور اسے گجرات کا قصاب ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی وجہ سے نیویارک کے بھارتی نژاد آبادی میں بی جے پی کے حامی عناصر نے ظہران ممدانی کی مخالفت کی۔ اپنے مضبوط اور دلیرانہ موقف کی بنا پر نہ صرف امریکی صدر ٹرمپ بلکہ ان کے حامی الٹرا رائٹ ونگ عناصر اور ٹوئٹر ایکس کے مالک ایلون مسک جیسے کھرب پتی بھی ظہران ممدانی کے شدید مخالف تھے۔ ان سب نے ان کے خلاف زوردار مہم چلائی مگر سب کو منہ کی کھانا پڑی۔ ممدانی کے خلاف امریکی میڈیا کے ایک حصے نے بھی خوب زہر اگلا۔ انہیں اسلاموفوبیا کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مخالف امیدوار اینڈرو کومو نے یہ تک کہا کہ ظہران ممدانی تو نائن الیون پر جشن منائیں گے یعنی ممدانی کی حب الوطنی کو نشانہ بنایا۔ یہ سب حربے ناکام رہے اور ایک اسرائیل مخالف جنوبی ایشیائی مسلمان پہلی بار نیویارک جیسے شہر کا میئر منتخب ہوگیا۔

گارڈین کی رپورٹر نے رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا: بروکلین میں پوری رات فضا پرجوش اور جشن سے بھرپور رہی۔ جیسے ہی نتیجہ آیا، ہجوم خوشی سے چیخ اٹھا، تالیوں اور نعروں سے ہال گونج اٹھا۔ پھر ممدانی اسٹیج پر آئے اور اعلان کیا: امید زندہ ہے۔ ظہران ممدانی نے اعتراف کیا کہ ان کی مہم نے ترقی پسند ووٹروں میں ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ ظہران ممدانی نے اپنے شدید مخالف صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک پیغام دیا: چونکہ میں جانتا ہوں آپ دیکھ رہے ہیں میرے پاس آپ کے لیے چار الفاظ ہیں: آواز اونچی کر دو (Turn the volume up )۔ ممدانی کی تقریر کی یہ بلند لہجے والی امید، ان کے حریف اینڈریو کومو کی مایوس کن تقریر کے بالکل برعکس تھی۔ ممدانی کی مہم بھی اسی رنگ میں تھی۔ روشن، خوش مزاج، عام شہری کو ساتھی کے طور پر پیش کرنے والی۔ مشہور کامیڈین رامی یوسف نے انہیں یوں پیش کیا: ایک ایسا شخص جو ہر جواب کے بعد اتنی مسکراہٹ دیتا ہے کہ خود اس کے چہرے کو درد ہونے لگے! یہ منظر ان کی مہم کے خوشگوار لہجے کی بہترین جھلک تھا۔ ظہران ممدانی کی جیت پر صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا: AND SO IT BEGINS! ۔ (اور یوں یہ شروع ہوتا ہے!) گویا وہ بھی اس نئے چیلنج کو قبول کررہا ہو۔

ظہران ممدانی کی وہ پالیسیاں جنہوں نے اسے یہ شاندار کامیابی دلائی وہ سادہ مگر عوام کے دلوں کے قریب ہیں۔ اگرچہ قدامت پسند میڈیا نے ممدانی کو انتہاپسند کے طور پر پیش کیا لیکن ان کی پالیسیوں کا زیادہ تر حصہ اعتدال پسند سوشل ڈیموکریسی پر مبنی ہے:
٭کم از کم اجرت کو $30 فی گھنٹہ تک بڑھانا۔
٭امیر ترین افراد پر ٹیکس میں اضافہ۔
٭بسوں کو مفت کرنا۔
٭یونیورسل چائلڈ کیئر (ہر شہری کے لیے بچوں کی نگہداشت)۔
٭سستے مکانات کی فراہمی میں اضافہ۔
سب سے نمایاں تجاویز دو تھیں: کرایہ فریز، دو ملین کرایہ داروں کے لیے کرایوں میں اضافہ روکنا۔ دوسری شہری گروسری اسٹورزبنا کر سرکاری سطح پر سستے نرخوں پر بنیادی اشیاء کی فراہمی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ان پالیسیوں کو کس حد تک عملی جامہ پہنا سکیں گے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان منصوبوں کے لیے انہیں سالانہ تقریباً 10ارب ڈالر کی اضافی آمدنی درکار ہوگی۔ ظہران ممدانی کے لیے اصل چیلنج اس رقم کا انتظام کرنا ہوگا، کیونکہ صدر ٹرمپ انہیں ناکام بنانے کے لیے تلے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا تھا: ‘اگر ممدانی جیت گئے تو میں نیویارک سٹی کی (فیڈرل گورنمنٹ سے) فنڈنگ روک دوں گا، میں اچھا پیسہ برے پیسوں کے پیچھے نہیں پھینکوں گا’۔ خیر یہ سب ظہران ممدانی آگے جا کر دیکھیں گے، سردست تو ہمیں نیویارک میں ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی، اسرائیل مخالف، نریندر مودی مخالف میئر منتخب ہونے کو ایک اچھی علامت سمجھنی چاہیے۔ امریکا بدل رہا ہے اور لگتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو خود اس کے اپنے گڑھ ہی میں شکست ہونے جا رہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!