سوڈان میں کیا ہو رہا ہے؟

گزشتہ چند دنوں سے ہمارے دوست احباب مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ سوڈان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت سوڈان میں کوئی کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے، بلکہ بدقسمتی سے یہ سوڈانیوں کی آپس کی جنگ ہے۔ دونوں طرف مسلمان ہی ہیں۔ دونوں طرف عربی النسل لوگ ہیں۔ ایک طرف ریاست کی باقاعدہ فوج ہے جبکہ مقابلے میں نیم فوجی ملیشیا ہیں۔ درمیان میں غریب عام مارے جا رہے ہیں۔

سوڈان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ دارالحکومت خرطوم اور اس کے گردو نواح ملبے کے ڈھیروں میں بدل چکے ہیں۔ لاکھوں انسان اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ اسپتال ویران، بازار جلے ہوئے اور معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ملکی فوج اور خود سر ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز کے مابین جاری اس خانہ جنگی نے نہ صرف اقتدار کا توازن بگاڑا ہے، بلکہ ایک بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دیا ہے۔ بدترین مارا ماری کی وجہ ہزاروں لاشیں گلیوں اور سڑکوں پر بے گورکفن پڑی ہیں۔ اقوام متحدہ نے سوڈان کی خانہ جنگی کو دنیا کا تیزی سے بگڑتا ہوا انسانی بحران قرار دیا ہے، جبکہ افریقی یونین اور عرب لیگ نے فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ یورپی یونین نے انسانی امداد کے لیے فنڈ مختص کیا ہے، لیکن امدادی قافلے بندوقوں کی زد میں پھنسے ہوئے ہیں۔

سوڈان کا مسئلہ کیا ہے؟ لڑائی کیوں چھڑی ہوئی ہے؟ عالمی میڈیا اسے وسائل کی جنگ قرار دے رہا ہے۔ سوڈان کے قضیے کو سمجھنے کے لیے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔ کمانڈر محمد علی پاشا جدید مصر کا بانی کہلاتے ہیں۔ جدید سوڈان کے خط و خال ابھارنے میں بھی اس کی آل اولاد کا اہم کردار ہے۔ 1820میں پاشا نے مصر سے نکل کر جنوب میں واقع موجودہ سوڈان کی سرزمین پہ حملہ کر دیا۔ اس وقت موجودہ سوڈان پانچ ٹکڑوں میں منقسم تھا۔ سلطنتِ زرقا جسے سلطنتِ سنار بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنتِ شندی، کردفان، دارفور اور مشرقی سوڈان۔ پاشا نے سب سے پہلے سلطنتِ زرقا پہ قبضہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ دیگر ریاستوں کو بھی اپنے اقتدار کی حدود میں کھینچ لایا۔ مغرب میں واقع دارفور کی ریاست آزاد ہی رہی، جسے بعد ازاں اس کے پوتے نے لگ بھگ نصف صدی بعد 1874میں فتح کیا۔

محمد علی پاشا کے حملے کے متعدد مقاصد تھے، جیسے سوڈانی سرزمین سے سونا حاصل کرنا، غلام اور افرادی قوت کا حصول اور جنوب میں وقتاً فوقتاً برپا ہونے والی شورشوں کی بیخ کنی۔ پاشا نے ہی اس مقبوضہ خطے کو السودان نام دیا تھا، جو آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔ 1882 میں برطانیہ نے مصری افواج کو شکست دے کر وہاں سیاسی اور عسکری غلبہ حاصل کر لیا۔ اسی دوران 1881میں سوڈانی عوام نے مصری گورنر کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر علمِ بغاوت بلند کردیا۔ محمد احمد المہدی قائد قرار پائے۔ یہ تحریک نہایت کامیاب رہی، جس نے بہت قلیل وقت میں اہم کامیابیاں سمیٹیں۔ مہدی نے بالآخر 1885میں پایہ تخت خرطوم کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوں یہ تحریک کم و بیش موجودہ سوڈانی خطے کی حاکم بن گئی۔

1899 میں برطانیہ کی قیادت میں اینگلو مصری افواج نے سوڈان پہ حملہ کر کے مہدوی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یوں اینگلو مصری سوڈان کے نام کے ساتھ برطانیہ اور مصر نے وہاں مشترکہ حکومت قائم کر دی۔ سوڈان کا موجودہ جغرافیہ وہی ہے جو اس زمانے میں طے کیا گیا تھا۔ سوڈان یکم جنوری 1956میں آزاد ہوا۔ بحیرہ احمر کے مغربی کنارے پہ واقع یہ ملک 2011سے قبل عالمِ اسلام کا دوسرا، جبکہ براعظم افریقہ کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد اب یہ عالمِ اسلام کا پانچواں، جبکہ الجزائر کے بعد افریقہ کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ سوڈان میں تقریباً 96فیصد مسلمان، تین فیصد مسیحی، جبکہ ایک فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ سوڈان کی غالب اکثریت سنی، جبکہ ایک فیصد آبادی شیعہ ہے۔ 1989میں سوڈانی فوج نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو عمر البشیر کے ساتھ حسن ترابی بھی مشیر کے روپ میں چلے آئے۔ یہ وہ دور تھا، جب ایران میں انقلاب اور افغانستان میں جہاد کامیابی کی منازل طے کر چکے تھے۔

سوڈان میں موجودہ خانہ جنگی کا آغاز اپریل 2023میں ہوا، جب ملک کی دو طاقتور عسکری قوتیں آپس میں برسرِ پیکار ہوگئیں۔ ایک طرف سوڈانی قومی افواج ہیں جن کی قیادت آرمی چیف جنرل عبد الفتاح البرہان کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورسز ہے، جس کے سربراہ محمد حمدان دقلو ہیں۔ RSFایک نیم فوجی دستہ ہے، جس کی شروعات دارفُور کے علاقوں میں ملیشیا کی شکل میں ہوئی تھی اور اب یہ ملک کے بڑے حصے میں مسلح کردار ادا کر رہی ہے۔ اس جنگ کا مرکزی پسِ منظر فوج اور RSFکے مابین طاقت کی تقسیم، حکومت میں شراکت اور عسکری اصلاحات کے موضوعات ہیں جو 2019کے بعدِ بشیر دور کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جنگ اب صرف دارفُور تک محدود نہیں رہی، بلکہ خانِہ کُردفان، شمالی کوروفان دارالحکومت خرطوم کے گرد بھی شدید قسم کی لڑائیاں ہوئیں۔ جنگ نے ایک بڑے انسانی بحران نے شکل اختیار کر لی ہے۔ خوراک، پانی، طبی سہولتیں، پناہ گاہیں شدید کمی کا شکار ہیں۔ تقریباً نصف آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے۔ صحت کا نظام تباہ ہونے کے قریب ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں، اور بنیادی انفراسٹرکچر شدید متاثر ہوا ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ کرنسی کی قدر گری، بینکنگ خدمات متاثر ہوئی ہیں، اور بے روزگاری بڑھی ہے۔ اس جنگ کے اثرات صرف سوڈان تک محدود نہیں؛ لاکھوں لوگ پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، اور علاقائی استحکام پر خطرہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بحیثیت امداد، فوجی مداخلت، ہتھیاروں کی فراہمی اور سیاسی حمایت کے معاملات سامنے آ رہے ہیں۔ سوڈان کی قومی فوج کو ترکیہ اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جبکہ آر ایس ایف کو مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسلحہ اور فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے سونے کے ذخائر سے مالامال خطے میں خانہ جنگی پھیلانے کا مقصد یہاں کے وسائل پر قبضے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ بہرحال بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اقوام متحدہ اس بحران کو ختم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہے نہ او آئی سی کی جانب سے اس پر کسی فکر مندی کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ وہاں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

اگر اس تنازعے کا جلد پُرامن حل نہ نکلا تو اس کے اثرات ملک کے اندر اور پڑوسی علاقوں میں طویل المدت مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ نقصانات کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اپریل 2023سے اب تک کم از کم ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں سب سے بڑا المیہ نقل مکانی کا ہے۔ جہاں 12ملین سے زائد افراد ملک سے فرار ہو چکے یا اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔ جن میں سے 8، 7ملین صرف گزشتہ 20مہینوں میں بے گھر ہوئے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے۔ قحط کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

دسمبر 2024تک کم از کم پانچ علاقوں میں قحط کی تصدیق ہو چکی تھی۔ پانچ مزید علاقوں میں قحط کا شدید خطرہ ہے۔ دنیا خاموش ہے، کیونکہ دنیا کے اپنے اپنے مفادات منسلک ہیں۔ خوراک، آمدنی اور قانونی خدمات کی کمی کے باعث بے گھر افراد کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اہم خطرات میں انسانی اسمگلنگ، جنسی تشدد، بچوں کی جبری شادی، جبری بھرتی اور بچوں کی مشقت شامل ہیں۔ الجنینہ، نیالا اور الفاشر جیسے شہر انسانی المیے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض بڑے پیمانے پر پھیل چکے ہیں۔

یہ بحران صرف بھوک کا نہیں بلکہ مکمل حکومتی نظام اور معاشرتی ساخت کے ٹوٹنے کا بحران ہے، جس کے دور رس اثرات آئندہ نسلوں پر بھی پڑیں گے۔ آپ خود سوچیں کہ اس ساری خونریزی، سربیت، خانہ جنگی اور مفادات کی اس بھیانک لڑائی کا حل کیا ہوگا؟ انجام کیا ہوگا؟ سوڈان میں پائیدار امن کی کوششیں نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ سب سے زیادہ علاقائی طاقتوں کے مابین اتفاق رائے پر منحصر ہیں۔ اللہ کرے کہ اس کا کوئی جلد حل نکل سکے۔ کم ازکم آپ اور ہم دعا تو کر ہی سکتے ہیں نا!