موٹر سائیکل سوار شکنجے میں!

ٹریفک پولیس پنجاب کی جانب سے موٹر سائیکل سواروں کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق
1۔ موٹر سائیکل چلانے کے لیے لائسنس کا ہونا ضروری ہے۔
2۔ موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ لازمی پہنیں۔
3۔ پارکنگ سنگل لائن میں کریں۔ مین روڈ پر بائیک مت کھڑی کریں۔
4۔ ہر موٹر سائیکل پر آگے اور پیچھے درست اور واضح نمبر پلیٹ لگی ہوں۔
5۔ موٹر سائیکل کی اگلی اور پچھلی لائٹیں اور اشارے درست لگے ہوں۔
6۔ سائیڈ مرر اور چین کوّر لگے ہوں۔
7۔ یہ سارے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے آپ کو ایک ہفتہ کا ٹائم دیا جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر کسی بھی ایک چیز درست نہ ہونے کی صورت میں 5000روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی آپ کی بائیک کسی بھی پارکنگ سے ٹریفک پولیس ضبط کر سکتی ہے۔ منجانب ٹریفک پولیس

اگر غور کیا جائے تو یہ ہدایات نہ تو نامناسب ہیں اور نہ ہی غیرضروری ہیں۔ یہ تمام ہدایات موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت اور شناخت کے لیے ضروری ہیں۔ آئیے ان ہدایات کی افادیت اور درپیش مسائل کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں۔
پہلی ہدایت کے مطابق موٹرسائیکل سواروں کے لیے لائسنس کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ لائسنس حاصل کرنے کے لیے کم از کم عمر 18سال اور لائسنس ہولڈر کے پاس شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بارہ تیرہ سال کے بچے بھی موٹرسائیکل بھگائے پھرتے ہیں۔ ان کی موٹرسائیکل پر مکمل گرفت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ ٹریفک کے قوانین سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کی بے احتیاطی سے حادثات رونما ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ صوبے بھر میں اسکولز اور کالجز کے لاکھوں طلبہ موٹرسائیکلوں پر اپنے اداروں میں پہنچتے ہیں۔ دیہات سے شہروں میں جا کر پڑھنے والے طلباء کے ساتھ ان کی بہنیں بھی سکول و کالج میں پڑھنے کے لیے جاتی ہیں۔ اکثر طلبہ انٹر پاس کرنے کے بعد بھی 18سال کی عمر کو نہیں پہنچتے۔ یہ قانون ان طلبہ اور ان کے والدین کے لیے بہت مسائل کھڑے کرے گا۔ دیہات میں سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ٹریفک کے لیے بس کی دستیابی تو دور کی بات ہے وہاں تو رکشے اور تانگے بھی نہیں جاتے۔ ان طلبہ کے لیے موٹر سائیکل بہت بڑی سہولت ہے۔ اس بارے میں پنجاب حکومت اور ٹریفک پولیس کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں سڑکوں کی تعمیر اور بسوں کی دستیابی کے بعد یہ قانون لاگو کیا جائے تو مناسب ہے۔ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو قانون کے نام پر سہولت سے محروم کر دینا درست نہیں ہے۔ ملک میں پہلے ہی شرح خواندگی 60فیصد جبکہ خواتین میں 51فیصد کے قریب ہے۔ صرف اس ایک قانون سے یہ شرح 51فیصد سے بھی نیچے آ جائے گی۔ تعلیم کے معاملے میں ہم پہلے ہی ترقی پذیر ممالک کی بھی آخری صف میں ہیں۔ طلبہ کو استثناء ملنا بہت ضروری ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس سے تمام موٹرسائیکل والوں کو مستثنیٰ کیا جائے۔ ان کا شناختی کارڈ ڈرائیونگ لائسنس قرار دیا جائے۔ طلبہ کا اسٹوڈنٹ کارڈ ڈرائیونگ لائسنس سمجھا جائے۔

دوسرا نکتہ بڑا اہم ہے۔ موٹرسائیکل سواروں کیلئے یقینا ہیلمٹ پہننا بہت ضروری ہے۔ حادثے کی صورت میں بہت سی اموات ہیڈ اِنجری کے سبب ہوتی ہیں۔ اس قانون پر عمل کروانا بہت ضروری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کم آمدنی والے افراد ہیلمٹ کی خریداری کو کسی دوسری ضرورت کو پورا کرنے کیلیے ٹالتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پنجاب حکومت اس کیلیے خصوصی فنڈز مختص کرے۔ اس کے علاوہ مختلف کاروباری اداروں کی اس میں شراکت یقینی بنائے۔ خواہ وہ ادارے اپنے مونوگرام پرنٹ کروا کر حکومت کو ہیلمٹس ڈونیٹ کریں۔ جس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہیلمٹ موجود نہ ہو اسے روڈ پر ہی مفت ہیلمٹ دے کر مخصوص ایپ میں اس کا اندراج کیا جائے۔ اس بات کی تسلی کر لی جائے ہیلمٹ وصول کرنے والا موٹرسائیکل کا مالک ہو۔ ہیلمٹ کی وصولی کے بعد کسی موقع پر وہ بغیر ہیلمٹ پکڑا جائے تو اسے لازمی جرمانہ کیا جائے۔ یہ قانون بھی نافذ کر دیا جائے کہ آئندہ ہر نئی موٹر سائیکل کی خریداری پر ساتھ ہیلمٹ خریدنا لازمی ہو گا۔

تیسری ہدایت کے مطابق پارکنگ سنگل لائن میں کریں۔ مین روڈ پر بائیک مت کھڑی کریں۔ یہ بڑے شہروں کے لیے ہے۔ مین روڈ پر تیز رفتار ٹریفک رواں ہوتی ہے۔ وہاں پارک کی گئی موٹرسائیکل روانی میں خلل کے علاوہ حادثے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ کمشنر لاہور اور چیف سیکریٹری پنجاب کے دفاتر کے اردگرد بنی بے شمار پارکنگز کو بھی وہاں سے ختم کرنا ضروری ہے۔ ان کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ چوتھی ہدایت یہ ہے کہ موٹرسائیکل کے آگے پیچھے درست اور واضح نمبر پلیٹس لگی ہوں۔ یہ بہت ضروری اور اہم ہے۔ زیادہ تر وارداتیں بغیر نمبر پلیٹ موٹرسائیکلوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ اگلی ہدایت کے مطابق موٹر سائیکل کی اگلی اور پچھلی لائٹیں اور اشارے درست ہوں۔

ہدایت نمبر چھ کے مطابق سائیڈ مرر اور چین کوّر لگے ہونا ضروری ہے۔ چین کوّر کی بہت اہمیت ہے۔ اگر یہ نہ لگا ہو تو کپڑوں پر انمٹ داغ اور نشانات لگ جاتے ہیں مگر اس سے بھی بڑا نقصان اس وقت ہو جاتا ہے جب چلتی موٹر سائیکل کی چین میں کپڑا پھنس جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والا حادثہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ جہاں تک سائیڈ مرر کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ 90فیصد موٹر سائیکلوں پر یہ شیشے نہیں لگے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹر سائیکل چاہے پارکنگ میں کھڑی کی جائے یا بازار میں، اس کے شیشے چور اتار لیتے ہیں۔ اس نکتے پر غور کیا جانا چاہیے کہ پارکنگ سے شیشہ چوری کروانے کے بعد 5000روپے جرمانے کی دوہری سزا مہینے میں کئی بار بھگتنا غریب آدمی کو ڈپریشن کا شکار کر دے گا۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ سب قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے صرف ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے جو پورا ہونے کو ہے لیکن مناسب تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک پولیس کا ہدایت نامہ دس فیصد لوگوں تک بھی نہیں پہنچ پایا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ خدارا غریبوں کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے۔ آپ ایک انڈے کا حکم دیں گی اور سرکاری اہل کار پورے صوبے کی مرغیاں ذبح کر دیں گے۔ ٹریفک پولیس تو بلاوجہ چالان کاٹنے، جرمانے کرنے اور رشوت لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اندھا اختیار تو انہیں ہلاکو خاں بنا دے گا۔ عوام پر رحم کیجیے۔