چھٹی قسط:
بیلجیئم میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ مسلم آبادی کی حتمی آبادی تو دستیاب نہیں ہو سکی کیونکہ حکومت کی طرف سے مذہبی سروے نہیں کیا جاتا،البتہ اندازاً مسلم آبادی کل آبادی کا تقریباً 7فیصد ہے۔ بیلجیئم کے دار الحکومت برسلز میں (Brussels) میں مسلم تناسب سب سے زیادہ ہے جو 23فیصد تک ہے۔ بیلجیئم میں مسلمان اقلیتی آبادی ہونے کے باوجود مسلم سینٹرز اور مساجد کی باغ و بہار ہے۔برسلز کی آبادی کا تقریباً 20–25٪ حصہ مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ شہر میں درجنوں مساجد، اسلامی اسکول، اور مسلم ثقافتی سینٹرز ہیں۔ مسلم برادری زیادہ تر مراکشی، ترکی، پاکستانی اور افریقی نژاد ہیں۔ برسلز میں معروف مسجد کا نام مرکزی جامع مسجد برسلز Great Mosque of Brussels ہے۔ 2004ء کے ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 328مساجد تھیں۔
Brusselsدراصل قدیم ڈچ لفظ Broekselسے بنا ہے، جس کا مطلب ہے: ”دلدلی زمین پر بنائی گئی بستی۔” برسلز شہر کی بنیاد 10ویں صدی میں رکھی گئی، جب اسے دریائے سین (Senne) کے کنارے ایک چھوٹے قلعے کے طور پر تعمیر کیا گیا۔قرونِ وسطیٰ میں یہ تجارت اور دستکاری کا اہم مرکز بن گیا۔12ویں تا 15ویں صدی کے دوران برسلز نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں۔ 16ویں تا 18ویں صدی میں مختلف اوقات میں ہسپانوی، آسٹریائی اور فرانسیسی حکمرانوں کے زیرِ قبضہ رہا۔ 1830ء میں بیلجیم نے نیدرلینڈز سے آزادی حاصل کی تو برسلز کو دارالحکومت بنایا گیا۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے اس پر قبضہ کیا لیکن بعد میں آزاد کرایا گیا۔ آج برسلز یورپی یونین اور نیٹو (NATO) کا صدر مقام ہے، اس لیے اسے “یورپ کا دل” بھی کہا جاتا ہے۔ برسلز کثیر اللسانی (Multilingual) شہر ہے۔ فرانسیسی (French) اور ڈچ (Flemish) یہاں کی عمومی زبانیں ہیں۔
بیلجئیم میں برطانوی طرز کابادشاہی نظام ہے۔ ملک کا آئینی سربراہ King Philippe ہیں تاہم انتظامی سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔ Bart De Wever فروری 2025 میں بطور وزیراعظم حلف اٹھایا، اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فلمنگ بولنے والے فلیمنش قوم پرست جماعت New Flemish Alliance (NـVA) کے رہنما نے وفاقی حکومت کی قیادت سنبھالی ہے۔ وہاںپانچ جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت ہے، جس میں فلمنش اور فرینچ بولنے والی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ اتحاد ”ایریزونا کوئلیشن” (Arizona coalition) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اس کے جماعتوں کے جھنڈے کے رنگ اور امریکا کے ایریزونا ریاست کے جھنڈے سے مماثلت پائی گئی۔
تاریخی لحاظ سے یہ فرانسیسی زبان کی طرف مائل رہا، مگر سرکاری طور پر دونوں زبانیں تسلیم شدہ ہیں۔ نیز بڑی تعداد میں لوگ انگریزی بھی بولتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت میں فرانسیسی نفاست، ڈچ محنت اور یورپی جدیدیت سب کا اثر نمایں طور پر نظر آتا ہے۔ برسلز بیلجیئم کا اقتصادی حب ہے۔ بڑے بینک، سفارت خانے، یورپی ادارے، اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یہیں واقع ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں UNESCO، MiniـEurope (یورپی ماڈلز کا پارک) اورAtomium ہیں۔ایٹومیئم (Atomium) برسلز میں واقع ایک مشہور یادگار اور عجائب گھر ہے۔ یہ بیلجیئم کی سائنسی ترقی، جدید فنِ تعمیر اور 1950ء کی دہائی کی ٹیکنالوجی کی عظیم علامت ہے۔یہ عمارت ایک ایٹم (Atom) کے ماڈل کی شکل میں ہے، لیکن عام ایٹم سے 165 ارب گنا بڑا ہے۔ یہ 1957ء میں تعمیر ہوا اور اس کا افتتاح 25 مارچ 1958ء کو کیا گیا۔ یہ Expo 58 کے بعد عارضی ڈھانچے کے طور پر بنایا گیا تھا، لیکن عوام میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے اسے مستقل کر دیا گیا۔ اس کی شکل آئرن (Iron) کے ایک کرسٹل کی ساخت پر مبنی ہے۔ اس میں 9 بڑے اسٹیل کے گو لے (spheres) ہیں، جنہیں ٹیوبز کے ذریعے آپس میں جوڑا گیا ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً 102 میٹر (335 فٹ) ہے۔ اس کا وزن2,400 ٹن کے قریب ہے۔ ہر گولے کے اندر سیڑھیاں، لفٹس اور نمائش کے کمرے ہیں۔ سب سے اوپر والے گولے سے برسلز کا خوبصورت فضائی منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک عجائب گھر (Museum) اور سیاحتی مرکز ہے۔ یہاں سائنس، تاریخ، فنِ تعمیر اور Expo 58 کی نمائشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 2006ء میں عمارت کی مرمت اور جدید کاری کی گئی اور اس میں ایلومینیم کی جگہ اسٹین لیس اسٹیل لگایا گیا۔ رات کے وقت اس پر LED لائٹس جگمگاتی ہیں، جو پورے برسلز سے دکھائی دیتی ہیں۔ 2015ء میں اسےBrussels Expo Museum کا درجہ دیا گیا۔یہ برسلز کے سیاحتی نشانوں (Landmarks) میں سے ایک ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہے جو پیرس میں ایفل ٹاور کی ہے۔
آج کے دور میں برسلز صرف بیلجیئم کا ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کا سفارتی و انتظامی دارالحکومت ہے۔ شہر میں جدید فنِ تعمیر، تاریخی عمارات اور سیاسی اداروں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے سب سے زیادہ بین الاقوامی شہروں میں شامل ہے جس میں تقریباً 30 فیصد غیر ملکی باشندے ہیں۔ ہم نے پورے دو دن یہاں گزارے۔

