تیسری و آخری قسط:
ہماری روز کی غذا میں شامل بہت سے پھل بھی نو آباد ہیں، یہ مٹی 500سال پہلے تک ان سے ناواقف تھی۔ مثلاً یقین ہی نہیں آتا کہ چند سو سال پہلے انناس ہندوستان میں اجنبی رہا ہوگا، یہ مقامی ساحلوں کا پھل لگتا ہے لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے۔ انناس برازیل اور جنوبی امریکا میں پیدا ہوتا تھا، اسے پرتگیز پہلے پہل ہندوستان لائے اور ساحلی علاقوں مثلاً مہاراشٹرا، کیرالا اور کرناٹک کی آب و ہوا انناس کو ایسی راس آئی کہ مقامی ہوکر رہ گیا۔
اسی طرح سرد یا پہاڑی علاقوں کے پھلوں سے پانچ سو سال پہلے خال خال قدیم ہندوستانی واقف تھے۔ مثلاً برصغیر کو سیب جیسے لذیذ پھل سے متعارف کرانے کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ سیب کا اصل وطن کرغزستان اور وسط ایشیائی ریاستیں ہیں۔ گمان ہے کہ شاہراہ ریشم کے ذریعے سیب بھی معمولی مقدار میں ہندوستان آتا رہا ہوگا لیکن مغلوں نے اسے بھرپور انداز میں پھیلایا۔ اگرچہ بابرنامہ میں بھی سیب کا ذکر ملتا ہے لیکن شہنشاہ جہانگیر نے محسوس کیا کہ کشمیر کی آب و ہوا سیب کے لیے بہت موزوں ہے۔ اس نے کشمیر میں سیب کے درخت بڑی تعداد میں لگوائے۔ کشمیر سے جہانگیر کی محبت ایسی تھی کہ ممکن ہوتا تو اپنے سب پسندیدہ پھل وہیں لگوا دیتا۔ سیب کو پاکستان اور ہندوستان کے شمالی، ٹھنڈے اور پہاڑی مقامات راس آگئے اور اب یہاں سیبوں کی بہت اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جو ہمارے یہاں بہت لذیذ، رسیلا اور گودے بھرا گہرے قرمزی رنگ کا سیب ‘کالاکلو’ معروف ہے، اس کے گہرے رنگ کی وجہ سے اسے کالا کہا گیا اور پہلے پہلے چونکہ ہماچل پردیش کی پہاڑی وادی کلو میں اگایا گیا تھا، اس لیے اس کا نام یہی پڑگیا۔ اب یہ قسم بھی سوات سمیت بہت سے پاکستانی علاقوں میں بہترین پیدا ہوتی ہے اور بات سیب تک محدود نہیں، خربوزہ، تربوز، آلو بخارا، چیری، ناشپاتی، انار، انگور اور انجیر وغیرہ بھی ہندوستان کے پھل نہیں تھے۔ یہ وسط ایشیا، افغانستان، ایران اور ترکی سے مسلمانوں کے ذریعے ہندوستان پہنچے۔ دو بڑے مغل بادشاہ بابر اور شاہجہاں پھلوں کا خاص ذوق رکھتے تھے۔ بابر کی خربوزے سے محبت معروف ہے۔ مغل بادشاہ ان پھلوں کو اپنے ذاتی محلات اور باغات میں اگانے کا اہتمام کرتے تھے اور جو ممکن نہ ہوتا وہ فرغانہ، ازبکستان وغیرہ سے تازہ یا خشک شکل میں منگوایا کرتے تھے۔ اس زمانے کے ذرائع آمد و رفت کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ازبکستان یا کابل سے تازہ پھل دلی یا آگرہ پہنچتے ہوں گے۔ ہر موسم میں یہ ممکن بھی نہیں ہوتا ہو گا۔ غور کیجیے تو صرف اسی لحاظ سے ہم ان شہنشاہوں سے بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ چند کلو میٹر کے فاصلے پر تیزرفتار سواری پر پہنچے۔ مقامی پھل تو اپنی جگہ، ملایا کا Rambutan، سیام کا Mangosteen، برازیل کا ایواکاڈو، قندھار کا انگور، تاشقند کا آلو بخارا بھی۔
سمجھ نہیں آرہا کہ لیموں کو پھلوں میں شمار کروں یا سبزیوں میں۔ لیکن جو بھی ہے یہ برصغیر میں باہر سے نہیں آیا۔ لیموں ہمالیائی ڈھلانوں پر پیدا ہونے والے ترنج (Citron) کی اولاد ہے۔ ترنج کو ہندوستان کی مختلف زبانوں میں گلگل، پراک، بجورو، مہالنگا وغیرہ کے نام سے پکارا گیا۔ اسی ترنج کی ایک قسم نے لیموں کی شکل اختیار کی اور یہ ہمالیائی اور ہندوکش کے علاقوں میں پھیلتا گیا۔ آسام، برما اور چین کے علاقوں میں لیموں قدیم زمانوں میں موجود تھا۔ ایران میں خاص طور پر اسے ادویہ اور غذاؤں میں اہمیت حاصل ہوئی اور سکندرِاعظم کے فوجی اسے ایرانی سیب کہا کرتے تھے۔ قریب قریب 200بعد از مسیح میں یہ یورپ پہنچا اور ساتویں صدی میں عرب لیموں سے متعارف ہوئے۔ عربوں نے اسے غذاؤں اور دواؤں کے ذریعے خوب خوب پھیلایا اور اسے دنیا کے بہت سے علاقوں تک لے گئے۔ کولمبس لیموں کے بیج امریکی براعظم لے گیا تھا اورامریکا اسی دور میں لیموں سے متعارف ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ہندوستان نے لیموں کو پوری دنیا میں متعار ف کرایا۔ وہی لیموں جو اس وقت دنیا بھر کے کھانوں کا جزو اعظم ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ لیموں کے رس کا مشروب، جسے ہم سکنجبین کے نام سے جانتے ہیں، مقامی نہیں تھا۔ سکنجبین ایرانیوں نے متعارف کروائی اور شروع شروع میں اسے دوا کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ جان کر کہ سکنجبین کا لفظ، سرکہ اور انگبین (شہد) کے لفظوں سے مرکب ہے، میری طرح آپ کو بھی حیرت ہوگی۔ یعنی سرکہ انگبین۔ یہیں سے سکنجبین کا لفظ نکلا اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا تھی۔ اب سکنجبین ایسا دیسی مشروب ہے جس کے بغیر گرمیاں گزرتی ہی نہیں۔ یہ تحفہ مسلمانوں نے ہندوستان کو دیا تھا۔ فارسی میں شربت کہلانے والی مشروبات کی کئی اقسام مسلم ادوار ہی کی دین ہیں۔ یہ شربت پھلوں یا پھولوں کے عرق سے بنائے جاتے تھے۔ بابر بادشاہ شربت ٹھنڈا کرنے کے لیے ہمالیہ کے پہاڑوں سے برف منگوایا کرتا تھا۔ ٹھنڈی تاثیر کے لیے عرقِ گلاب، صندل، کیوڑا، لیموں اور املی کا استعمال بھی عام تھا اور مسلم حکیموں نے یہ متعارف کروایا۔ فالودہ بھی مسلمانوں کی دین ہے۔یورپیوں نے مغربی الکحلک مشروبات تو برصغیر میں متعارف کرائے ہی لیکن چائے اور کافی کو جس طرح انہوں نے برصغیر میں اپنی تجارت کے لیے پھیلایا، ایسی اور کوئی مثال نہیں ہے۔ ہم جو دودھ، لسی، چھاچھ اور املی کا پانی پینے والے لوگ تھے، چائے کے ایسے نشئی بنے کہ اب دن بھر میں ایک لٹر چائے نہ انڈیل لیں تو کام نہیں ہوتا۔ لگ بھگ تین ہزار سال قبل مسیح، چینی بادشاہ کے ابلتے پانی میں اتفاق سے جو چائے کی پتیاں گری تھیں اور چائے ایجاد ہوئی تھی، وہ اب پوری دنیا کو اُبال دے رہی ہے۔ 1662ء کے انگلینڈ میں شہنشاہ چارلس دوم نے پرتگیز شہزادی کیتھرین سے شادی کیا کی، چائے بھی دربار میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے آسام اور بنگال میں چائے کے باغات لگانا شروع کیے اور اسے دولت کا ذریعہ بنایا۔
میں ایک الگ تحریر ”حلقہ بگوش مشروب” میں بتا چکا ہوں کہ کافی تو یمن کے مسلمان صوفیا نے دنیا بھر تک پہنچائی۔ کئی روایات ہیں اور ہر روایت میں کوئی نہ کوئی مسلم موجود ہے۔ ایک قدیم روایت کے مطابق شیخ عمر نامی بزرگ موشہ (یمن) میں رہتے تھے۔ ایک زمانے میں انہیں وصاب نامی دشت میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس ویرانے میں کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ شیخ عمر نے ایک خودرو جھاڑی دیکھی اور اس کی پھلیوں سے بھوک مٹانے کی کوشش کی مگر یہ سخت تلخ تھیں۔ انہوں نے ان پھلیوں کو بھونا لیکن یہ اور سخت ہوگئیں۔ پھر انہوں نے ان پھلیوں کو پانی میں ابالا تاکہ نرم ہوسکیں۔ نتیجہ ایک خوشبودار، توانائی بخش بھورا مشروب تھا جسے پینے سے شیخ عمر کو توانائی مل گئی اور وہ زندگی کرنے کے قابل ہوگئے۔ یہ کافی کی دریافت تھی۔ جب موشہ میں اس معجزاتی مشروب کی داستانیں پہنچیں تو شیخ عمر کو واپس بلا لیا گیا۔ اس طرح یمن میں پہلی بار کافی متعارف ہوئی۔ یمن کی خانقاہوں میں یہ مشروب تیزی سے مقبول ہوا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ جان دار قہوہ عبادت گزاروں کو رات بھر جاگنے میں مدد دیتا تھا۔ کافی کا لفظ بھی دراصل عربی سے آیا ہے۔ اگر سامی زبانوں پر ایک نظر ڈالیں جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں تو ”قہہ” کے مادے کا مطلب ہے گہرا رنگ یا تاریک۔ یہی لسانی مادہ عربی ‘قہوے’ کا منبع ہے۔ عربی لغات دان ”قھی” کا مطلب بتاتے ہیں: بھوک ختم کرنے والا۔ قہوہ کا لفظ عثمانی ترکوں نے عربی سے لیا اور یہ ترکی میں ”قہوے (kehve)” کے طور پر رائج ہو گیا۔ ترکوں سے ڈچ زبان میں یہی لفظ ”کوفی (koffie)” کے نام سے آیا اور 1582ء میں انگریزی زبان میں پہلی بار ”کافی (coffee)” کے نام سے متعارف ہوا۔
یہ جو نو آباد غذاؤں پر ”خلاصة التواریخ” پیش کیا ہے، صرف ایک بات بتاتا ہے: پرندوں، ہواؤں، زبانوں اور غذاؤں کو ویزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسانوں سے سرحدوں پر پاسپورٹ مانگا جاتا ہے، بادل بے روک ٹوک گزر جاتے ہیں۔ غذائیں ہر صدی میں بدل جاتی ہیں۔ بہت ممکن ہے ہماری اگلی نسلیں ہمارے بہت سے کھانوں کے نام صرف تاریخ میں پڑھیں۔

