(حصہ سوم)
مُجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے، وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے، بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی و فقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ و دو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مُجدِّدینکی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فردًا فردًا جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مُجدِّد اعظم اور مُجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر و تشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر و تشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہوگئی ہے، جو اکبر بادشاہ نے ”دینِ الٰہی” کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکروفریب کے تاروپود کو بکھیرنے میں حضرت شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ و شریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ”مجدّدِ الفِ ثانی”کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر و تشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر و تشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمد للہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے، ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ”گردن نہ جھُکی جس کی جہانگیر کے آگے/ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِٔ احرار ٭وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں/ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار”۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نورتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام، ہندومت، بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزاء کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اُن کے نام سے منسوب ہو اور ”اکبر شاہی دینِ الٰہی” کا لیبل لگاکر اسے رائج کیا جائے، یہ ”وحدتِ ادیان” کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے، گویا: ”کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا”۔ اس کے نورتنوں میں راجا بیربل، ابوالفیض فیضی، ابوالفضل، تان سین، عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں، راجا مان سنگھ، ابوالحسن المعروف ملا دوپیازہ، راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے، رتن کے معنی ہیں: ”ہیرا ”۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ”فتاویٰ عالمگیری” مرتب کرائی، جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہوگئے۔
تجدُّد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آرہی ہوتی ہے، اُسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کاطنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اِسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے، اس میںجدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا، اُنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اُصول فقہ کے قواعد کی روشنی میںحل کیاجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ”تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو، کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کردیا گیا ہے، (سننِ دارمی: 211) ”۔
آپ تجدُّد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہونگے، الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز، یعنی عقلیت وتجدُّد پسندی حاصل ہے، اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا در اصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں، علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علماء اِن وادیوں سے بخوبی واقف ہیں، جن وادیوں کے شناسا یہ تجدد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں، اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے، وہ اِسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں، جیساکہ آوارہ منش شعراء کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ”اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں، کیا آپ نے انھیں دیکھا نہیں کہ وہ ہروادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بے شک وہ جو کچھ کہتے ہیں، اس پر عمل نہیں کرتے، (الشعرائ: 224-226)”۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ”اعتدال پر مبنی روشن خیالی” کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا تھا: ”تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو، جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے، کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آگئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لوکہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات، اصولی عقائد اور مسلّمات بتادیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انھوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفا کار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غُلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غُلُوّ وجفاکے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں، ( ابوداود: 4612)”، علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط/ قوم را برہم ہمی پیچد بساط ٭زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر/ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر مفہومی ترجمہ: ”زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے”۔ جنابِ غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ”اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے، جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے (الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ج: 2، ص: 403)”۔ (جاری ہے)

