چرتے جانوروں کا قرآن کا بیان کردہ جمالیاتی منظر

جب کسی ملک کے دیہاتی اور پہاڑی علاقوں میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ ہری بھری ڈھلوانوں پر بکریاں اور بھیڑیں سکون سے چر رہی ہیں، چرواہے ہاتھ میں چھڑی لیے ان کی رہنمائی کر رہے ہیں اور وادیوں میں گونجتی ان کی آوازیں ایک عجیب سا ترنم پیدا کرتی ہیں، تو دل نہ صرف مسرور ہوتا ہے بلکہ ایک روحانی انبساط سے بھی بھر جاتا ہے۔ اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ قرآن نے اس منظر کو ”جمال” سے کیوں تعبیر کیا ہے، چنانچہ سورہ النحل کی آیت نمبر 6میں فرمایا: ”اور جب تم انہیں شام کے وقت گھر واپس لاتے ہو اور جب انہیں صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں تمہارے لیے ایک خوشنما منظر بھی ہے۔”

شاید شہروں کے رہنے والے آسودہ حال طبقہ کے ذہن قرآن کریم کے بیان کردہ اس جمال کی طرف نہ بڑھ سکیں لیکن دراصل یہ حسن صرف سبزہ اور جانوروں کا نہیں، بلکہ فطرت کی اس ہم آہنگی کا ہے جس میں انسان اور مخلوقاتِ دیگر سب ایک ہی خالق کی صناعی کے گواہ بنتے ہیں۔ یہ منظر ہمیں بار بار یقین دلاتا ہے کہ زمین کا اصل حسن سادگی اور فطرت کے قریب رہنے میں ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ میں حسی اور معنوی ہر دو قسم کے جمال کا بیان ہے۔ جمالِ حسی وہ حسن ہے جو صورت اور ظاہری رونق میں نظر آتا ہے، خاص طور پر مویشیوں کے اس وقت جب وہ شام کے وقت اپنے ٹھکانوں پر لوٹتے ہیں۔ اس وقت ان کے پیٹ خوراک اور تھن دودھ سے بھرے ہوتے ہیں، جو ان کے منظر کو اور زیادہ خوشنما بنا دیتا ہے جبکہ جمالِ معنوی وہ حسن ہے جو منظر کو دلکش بناتا ہے اور روح کو مسرت بخشتا ہے۔

دیہات اور پہاڑوں کی وادیوں میں جب سبزہ لہلہاتا ہے اور جھنڈ کے جھنڈ بکریاں، بھیڑیں اور گائیں سکون کے ساتھ گھاس چرتی ہیں، تو یہ منظر کسی پینٹنگ سے کم نہیں لگتا۔ سورج کی کرنیں وادی کے دامن کو چھوتی ہیں، چرواہے بانسری بجاتے ہیں اور جانور خاموشی سے قدرت کی عطا کردہ غذا کا لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ منظر صرف آنکھوں کو بھلا نہیں لگتا بلکہ دل کو ایک خاص قسم کا سکون بخشتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جسے قرآن نے بار بار یاد دلایا اور اسے عقل مندوں کیلئے نشانی قرار دیا۔ انسان کی معیشت اور بقا میں چرواہی کا کردار اتنا پرانا ہے کہ قرآن بھی اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ، یقینا ان سب باتوں میں عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔” (طٰہٰ آیت 54)

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سبز چراگاہوں میں آزاد پھرنے والے جانور صرف معیشت کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایمان و شعور کی تربیت کا سامان بھی ہیں۔ انبیائے کرام بھی چرواہی سے جڑے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں جو عصا تھا، اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں اس کا سہارا لیتا ہوں اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ اس سے میں اپنی بکریوں پر درخت سے پتے بھی جھاڑتا ہوں۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کی بکریاں چرائیں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ نے جو نبی بھی بھیجا، اس نے بکریاں چرائیں۔” گویا یہ پیشہ نہ صرف ذریعۂ رزق تھا بلکہ صبر، محنت اور قیادت کی تربیت بھی فراہم کرتا تھا۔

دیہات اور پہاڑوں میں چرنے والے جانور انسان کو وہی سبق یاد دلاتے ہیں کہ یہ کائنات محض صنعت و حرفت کی مشینری نہیں، بلکہ قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے۔ جب شام ڈھلتی ہے اور چرواہے اپنے جانوروں کو واپس لاتے ہیں تو گرد و غبار میں لپٹی وہ قطاریں دل کو مسرور کر دیتی ہیں۔

قرآن بار بار انسان کو مویشیوں سے حاصل ہونے والے فوائد یاد دلاتا ہے: ان کا دودھ جو مکمل غذا ہے، ان کا گوشت جو طاقت کا سرچشمہ ہے، ان کی کھالیں جو لباس اور خیموں کا سامان بنتی ہیں، ان کا اون اور بال جو بستر، رسیاں اور گھریلو استعمال کی چیزیں اور زینت فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب اس بات کا اعلان ہیں کہ اللہ نے انعامات کو صرف ایک کھانے پینے کی چیز نہیں بنایا بلکہ انہیں تہذیب و تمدن کی بنیاد میں شامل کر دیا۔ آج کے جدید دور میں جب شہروں کی چکاچوند میں سب کچھ مصنوعی سا لگنے لگا ہے، تب بھی اگر کوئی شخص دیہات یا پہاڑی علاقے میں جا کر جانوروں کے چرنے کا منظر دیکھ لے، تو اس کے دل کی گہرائیوں میں سکون اتر آتا ہے۔ یہ سکون اس لیے ہے کہ یہ منظر فطرت کی اصل تصویر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام قرطبی نے چرواہی کے مناظر کو جمالیاتی لذت قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ شام کے وقت چرواہے کے ساتھ واپس آتے جانوروں کی رونق دیکھنے کے لائق ہوتی ہے، اسی لیے قرآن نے شام کے منظر کا ذکر صبح کے منظر سے پہلے کیا۔

ان مناظر میں ایک اور پہلو بھی چھپا ہے: نظم و ضبط۔ چرنے والے جانور جھنڈ کی صورت میں چلتے ہیں، ان کے درمیان ایک خاموش ابلاغ اور باہمی رابطہ ہوتا ہے۔ بعض ماہرین حیوانات نے ثابت کیا ہے کہ یہ جانور اپنے جسمانی لمس اور آوازوں سے ایک دوسرے کو پیغام پہنچاتے ہیں۔ یہ منظر انسان کو بھی سبق دیتا ہے کہ معاشرے میں اجتماعی نظم کس قدر ضروری ہے۔

چرواہی کا پیشہ بظاہر سادہ نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت یہ انسان کو فطرت سے قریب کرتا ہے۔ یہ محنت سکھاتا ہے، عاجزی پیدا کرتا ہے اور اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ایک چرواہا پہاڑوں میں تنہا اپنے ریوڑ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس تنہائی میں وہ قدرت کے رازوں کو زیادہ قریب سے دیکھتا ہے۔ شاید اسی لیے بیشتر انبیاء کو چرواہی کے تجربے سے گزارا گیا تاکہ وہ قیادت کے بڑے امتحان کے لیے تیار ہو سکیں۔ ہمارے موجودہ معاشرتی اور معاشی مسائل میں اگر ہم اس قرآنی سبق کو یاد کریں تو ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ قدرتی مناظر، چرواہی اور جانوروں کی پرورش صرف پرانے زمانے کی روایت نہیں بلکہ آج بھی انسانیت کی بقا اور زمین کی خوبصورتی کیلئے ضروری ہیں۔ جانوروں کے چرنے سے نہ صرف معیشت مستحکم ہوتی ہے بلکہ وادیوں اور میدانوں کا حسن بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ الغرض دیہات اور پہاڑوں میں چرتے جانوروں کا منظر صرف ایک فطری دلکشی نہیں رکھتا، بلکہ یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم پر فرض ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں کو پہچانیں، ان پر غور کریں، ان سے فائدہ اٹھائیں اور سب سے بڑھ کر اس پر خالق کا شکر ادا کریں۔ کیونکہ یہ سب کچھ اسی ذات کی عطا ہے جس نے آسمان کو بلند کیا، زمین کو بچھایا اور چراگاہوں کو لہلہایا۔