مودی سرکار اس وقت چہار سو پھنس چکی ہے۔ ایک طرف بہار الیکشن میں گھٹتی مقبولیت’ دوسری جانب لداخ میں بی جے پی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک نے سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ہمالیائی خطے میں بڑھتی خونریزی مودی حکومت کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ 24ستمبر 2025ء سے لداخ کے دارالحکومت لیہہ میں نوجوان بی جے پی کی مرکزی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین نے ایک پولیس گاڑی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دفاتر کو آگ لگا دی جبکہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور ڈنڈوں کا استعمال کیا۔ تادم تحریر ان مظاہروں میں پانچ جوان ہلاک اور 70سے زائد زخمی ہیں جبکہ 30پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران معروف کارکن سونم وانگچک ایک لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ حالیہ مظاہرے سونم وانگچک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر منظم کیے گئے تھے’ جو لداخ کے لیے مکمل وفاقی ریاستی درجہ اور آئینی تحفظات کے مطالبہ کیلئے بھوک ہڑتال پر تھے۔ معروف ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک نے لداخ میں ہمالین انسٹیٹیوٹ آف لداخ کے نام سے ایک یونیورسٹی لیول کا ادارہ بنایا جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلتا ہے۔ اس ادارے کو ٹیکنیکل اسٹاف کی بجائے اس ادارے سے منسلک طالب علم ہی چلا رہے ہیں۔ انہیں کمیونٹی کے لیے غیرمعمولی خدمات’ انجینئرنگ ورک اور بطور ایک ایجوکیشنسٹ کے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ سونم وانگچک نے جنوبی ایشیا میں نیپال کے بعد ان مظاہروں کو جنریشن زی کا تسلسل قرار دیا ہے۔ کیا اب لداخ مودی کی ہندوتوا حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے؟
لداخ میں حالات خراب ہونے کے بعد سے وانگچک حکومتی نشانے پر ہیں۔ ان پر اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے نوجوانوں کو اکسانے کا الزام عائد کر کے سی بی آئی کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے عرب اسپرنگ کی طرز کے مظاہروں اور نیپال میں جنرل زیڈ (Gen Z )کے مظاہروں کا اشتعال انگیز حوالہ دے کر لوگوں کو گمراہ کیا۔ مودی حکومت نے وانگچک کی این جی او کا فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA) لائسنس بھی منسوخ کر دیا۔ لیہہ اس وقت بھارتی سکیورٹی فورسز کے سخت پہرے میں ہے’ لیکن مودی سرکار یہ بھول گئی ہے کہ کشمیر میں گزشتہ 77برسوں سے سنگینوں کے سائے میں بھی آزادی کی جنگ جاری ہے۔
اس احتجاجی تحریک کی شروعات تو 2019ء سے ہی ہو گئی تھی جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے آرٹیکل 370اور 35اے کا خاتمہ کر کے مظلوم وادی کا خصوصی ریاستی درجہ ختم کر دیا تھا۔ اس سے قبل لداخ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا جس کے بعد جموں وکشمیر اور لداخ کو تین علیحدہ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہ علاقہ براہ راست وفاق کے زیر انتظام آگیا۔ اقتدار کی ہوس میں لداخ میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہاں مودی سرکار نے لداخ کو خود مختار ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بی جے پی حکومت کی لداخ کے مسائل پر غفلت اور مجرمانہ خاموشی تشویشناک ہے۔ آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد لداخ ریاستی حیثیت کھو بیٹھا’ وعدہ پورا نہ ہونے پر لداخ کے عوام آئینی حقوق اور ریاستی خود مختاری کیلئے سڑکوں پر ہیں۔ مسلسل تین سالوں سے چار اہم مطالبات کو لے کر حکومت مخالف مظاہرے کررہے ہیں’ ان میں لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ’ لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دینے کا مطالبہ’ مقامی لداخیوں کے لیے ملازمت میں ریزرویشن’ لداخ کے لیے علیحدہ پبلک سروس کمیشن اور مرکز میں ان کی نمائندگی کے لیے لیہہ اور کارگل کے لیے دو پارلیمانی نشستوں کا مطالبہ شامل ہے۔ قبل ازیں بھی لیہہ ایپکس باڈی (LAB) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) نے لداخ کے ضلع لیہہ میں ”لیہہ چلو” کے نام سے احتجاجی کال دی تھی۔ خطے کی 90فیصد سے زائد آبادی شیڈولڈ قبائل کے طور پر درج ہے۔ اس حیثیت نے لداخ کو ہندوستانی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کے مطالبے پر اکسایا جو ان خطوں کو خود مختار انتظامی اور گورننس ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جہاں تسلیم شدہ مقامی کمیونٹی آبادی پر غلبہ رکھتی ہے۔ اس وقت ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں 10علاقے ہیں جو شیڈول کے تحت درج ہیں’ تاہم مودی حکومت نے اب تک ریاست کا درجہ اور لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ وانگچک کے مطابق نوجوان مظاہرین پانچ سالوں سے بے روزگار ہیں’ اور لداخ کوآئینی تحفظ نہیں دیا جا رہا۔ لداخ کی شرح خواندگی 97فیصد ہے جو ہندوستان کی قومی اوسط سے تقریباً 80فیصد زیادہ ہے لیکن 2023ء کے سروے کے تحت لداخ کے 26.5 فیصد گریجویٹس بے روزگار ہیں جبکہ وانگچک نے لداخ کیلئے آئینی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے پچھلے تین سالوں میں پانچ بھوک ہڑتالیں کی ہیں۔
2011ء کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی دو لاکھ 74ہزار کی آبادی میں 46.40فیصد مسلمان اور 39.65فیصدبدھ مت کے پیروکار ہیں۔ لہیہ ضلع میں بدھ آبادی 66.39فیصد ہے مگر اس ضلع میں بھی 25مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔ لہیہ اورکارگل پر مشتمل خطہ لداخ 9800فٹ سطح مرتفع پر واقع ہے’ جس کا کل زمینی رقبہ 59ہزار 146مربع کلو میٹرہے۔ لداخ کی حدود مشرق میں چین کے علاقے تبت’ جنوب میں بھارت کی ریاست ہماچل پردیش’ مغرب میں جموں اور شمال میں چین سے اور جنوب مغرب میں پاکستان سے ملتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں 2024ء میں بھارت نے انتخابات منعقد کروائے لیکن لداخ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان کے پاس اپنے کوئی منتخب نمائندے نہیں جو سرکار کو ان کے مسائل سے آگاہ کریں اور اس علاقے کی بہتری کے لیے کام کریں۔ جبکہ لداخ کو ایک علیحدہ فیڈرل ٹیریٹری کا درجہ ملنے کے بعد جموں و کشمیر میں لداخ کے رہائشیوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ سب ایک ایسے علاقے کے ساتھ نا انصافی ہے جس کی شرح خواندگی 97فیصد ہے اور یہاں ہر 100 میں سے تقریباً 26 گریجویٹ بے روزگار ہیں۔ بے روزگاری کے حوالے سے لداخ کا بھارت کی دیگر ریاستوں اور یونین ٹیرٹریز میں دوسرا نمبر ہے؛ چنانچہ ان عوامل کے نتیجے میں لداخ کے سرکردہ عوامی نمائندوں نے وفاق سے بات تو کی لیکن معاملات وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بھارت پہلے اپنی عسکری نااہلیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا تھا لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ بھارت اپنی انتظامی نااہلی کا ذمہ دار کسی نہ کسی صورت سونم وانگچک کے ساتھ پاکستان کو بھی ٹھہرا رہا ہے۔ ان مظاہروں کی ایک ممکنہ وجہ وانگچک کا پاکستانی دورہ بھی ہو سکتا ہے۔ لداخ کا چین کے ساتھ منسلک بارڈر تقریباً 16سو کلو میٹر پر محیط ہے اور 2020ء میں بھارت کو اسی سرحد پر شدید مار پڑی تھی۔ چینی فوجیوں نے بھارتی سورماؤں کا مکوں سے بھرکس نکالتے ہوئے 20فوجی ہلاک کر دیے تھے۔ اس واقعے کے بعد لداخ کے اندر چین لائن آف کنٹرول’ جس کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے’ سے کئی میل آگے چلا گیا۔ لداخ میں اب تک بی جے پی کو ایک مضبوط جماعت کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن اب مقامی لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ مرکز کی پالیسیوں سے ان کی شناخت اور حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ یہی غم و غصہ احتجاج کی شکل میں سامنے آیا۔ لداخ کی شناخت حقوق وجود کی لڑائی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اکتوبر میں ہونے والے مذاکرات محض ایک رسمی کارروائی ہوں گے یا پھر لداخ کی یہ آگ مزید بڑھکے گی اور مودی کی لنکا اس میں جھلس جائے گی۔