بات آج کے امریکا، آج کے وائٹ ہاؤس اور آج کے صدر امریکا پر کرنی ہے۔ ان کے طرزعمل اور کس طرح امریکا اپنے بیگیج کو اتارنے میں ناکام رہنے سے اپنے یورپ کے قابل اعتماد اتحادیوں سے محروم ہو رہا ہے۔ وہ بیگیج یا بوجھ کون ہے، کیا کرنا چاہیے، اس پر مختصر سی بات کریں گے، مگر پہلے 4عشرے قبل تاریخ کے ایک باب کی سیر کرتے ہیں۔ 23فروری 1986سہ پہر تین بجے۔ وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں ایک ہنگامی میٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ صدر ریگن کے تمام اہم مشیر موجود ہیں۔ ان میں نائب صدر جارج بش، وزیر خارجہ جارج شلز، وزیر دفاع کیپ وائن برگر، سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی۔ صدر کے چیف آف اسٹاف ڈان ریگن مشیر برائے قومی سلامتی جان پوائن ڈیکسٹر اور دوسرے اہم آفیشلز بے تابی سے امریکی صدر کا انتظار کر رہے ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور صدر رونلڈ ریگن اندر داخل ہوتے ہیں۔ انہیں کیمپ ڈیوڈ سے اپنا ویک اینڈ ادھورا چھوڑ کر آنا پڑا۔ صدر نے رسمی گفتگو سے گریز کرتے ہوئے میٹنگ شروع کرنے کا اشارہ کیا۔ ریگن سینیٹر فلپ کی جانب دیکھ کر کہتے ہیں میں آپ کا تجزیہ سننا چاہتا ہوں مگر پہلے انٹیلی جنس رپورٹ سن لی جائے۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان پوائن ڈیکسٹر نے چند جچے تلے فقروں میں بریفنگ دی ہم فلپائن میں ایک سنگین مخمصے سے دوچار ہیں۔ ایک طرف ہمارا پرانا وفادار ساتھی مارکوس ہے جس نے خطے میں امریکی پالیسیوں کو بڑی سعادت مندی سے آگے بڑھایا اور ہماری کوئی بات نہیں ٹالی۔
دوسری طرف فلپائنی عوام ہیں جو اس وقت مارکوس کے شدید مخالف ہیں۔ مارکوس فلپائن میں نفرت کی علامت بن چکا ہے۔ فلپائنی عوام نے اپنے غصے کا اظہار الیکشن میں مارکوس کے خلاف ووٹ دے کر کیا، مگر مارکوس نے عوام کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ مسز اکینو کی جیت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ مارکوس اپنے مخالفین کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آ رہا۔ ہمیں جلد کچھ کرنا ہوگا۔ ہم نے فلپائن میں تعینات امریکی سفیر کے ذریعے مارکوس کو پیغام بھجوایا کہ وہ انتخاب جیتنے والی جمہوری قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع کرے مگر مارکوس اپنے اختیارات چھوڑسکتا ہے اور نہ ہی فلپائنی عوام اسے مزید برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی نے 2فقروں میں اپنی بات مکمل کر دی۔ صورتحال بہت نازک ہے۔ مارکوس فلپائنی فوج کی حمایت سے بھی محروم ہو گیا۔ اس کے چند ہزار وفادار دستے اس کے ساتھ ہیں مگر وہ لاکھوں افراد کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
ریگن کے چہرے سے پریشانی مترشح تھی۔ انہوں نے اب فلپ کی جانب دیکھا جو فلپائن کے دورے سے صبح ہی لوٹا تھا۔ تجربہ کار سینیٹر فلپ نے ایک لمحے کا توقف کیا، پھر بولا جناب صدرمارکوس کا دور ختم ہو چکا، فلپائن میںتبدیلی کو نہیں روکا جا سکتا۔ ریگن یہ بے لاگ تبصرہ سن کر جیسے سناٹے میں آ گیا۔ چند لمحوں کے بعد صدر نے مزید وضاحت طلب کی تو فلپ نے بتایا، فلپائن کی فوج اب حکومت سے علیحدہ رہنا چاہتی ہے۔ مسلسل غیر یقینی سے ملکی معیشت تباہ ہونے کو ہے۔ جہاں تک مارکوس کا تعلق ہے، ادھر اپنے اقدامات سے لگتا ہے کہ مارکوس اپنے حواس کھو بیٹھا۔ وہ جس انداز میں اپنے ملک کو چلاتا رہا، اب یہ ممکن نہیں۔ وزیر خارجہ جارج شلز نے تیزی سے بات کاٹی، صاف بات ہے کہ مارکوس اب اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ مارکوس کو ملک چھوڑنا پڑے گا۔ جارج شلز نے ریگن کو مخاطب کر کے کہا، جناب صدر ماضی میں ہم نے ویتنام، ایران اور نکاراگوا میں تباہ کن غلطیاں کیں۔ اب امریکا کو اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے یہ بحران ختم کرانا چاہیے۔ اس کے بعد شلز نے اپنا پلان پیش کیا، وائٹ ہائوس بحران ختم نہ ہونے کی صورت میں امریکی امداد روکنے کی دھمکی دے۔ مارکوس کوایک فیصلہ کن خفیہ پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، آنے والی سول حکومت کو امریکی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی جائے۔
بریفنگ کے دوران ایک انٹیلی جنس رپورٹ میٹنگ میں پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ لاکھوں کی تعداد میں فلپائنی عوام ایوان صدر کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔ سب سے آگے کیتھولک نرسیں ہیں، جنہوں نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا رکھی ہے۔ یہ لوگ مارکوس کے محل کا گھیراؤ کرنا چاہ رہے ہیں۔ صدر ریگن نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، بس اسی کی کسر باقی تھی۔ اگر ایک بھی نن ماری گئی تو فلپائنوں کو ایک جون آف آرک مل جائے گی۔ جب تمام مشیر اپنی بات کہہ چکے تو صدرریگن نے فیصلہ کن انداز میں کہا، مارکوس ایک ضدی شخص ہے، ہمیں اس سے طریقے کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ پہلے ہم اسے مشورہ دیتے رہے، اب اسے واضح طور پر بتانا ہوگا، مگر الفاظ ایسے ہوں کہ اس کی انا مجروح نہ ہو۔ مارکوس کوپیغام بھیجو کہ اس کی اپنی حفاظت اور فلپائنی عوام کی بہتری کے لیے اسے ملک چھوڑنا ہوگا۔ امریکا اس کی مدد کرنا چاہتا ہے، مگر اس کے لیے مارکوس کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں اسے محفوظ راستہ اور علاج کی سہولت ملے گی۔
24فروری، 2بجے دوپہر، جارج شلز کی زیرصدارت اسٹیٹ آفس کے آفیشلز کا اجلاس ہوا۔ اس سے پہلے صدر مارکوس نے اپنی آخری کوشش کرتے ہوئے مسز اکینوکی حکومت تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پیش کش کی، مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ شلز کی میٹنگ 30منٹ تک جاری رہی، پھر پوائن ڈیکسٹرنے منیلا مارکوس کو فون ملایا۔ امریکی صدر کے مشیر کا پہلا فقرہ تھا، آپ کے جانے کا وقت آپہنچا ہے۔ جو چیزیں سمیٹنی ہیں، سمیٹ لیں۔ جواب میں اتنا لمبا وقفہ آیا کہ پوائن ڈیکسٹر نے سوچا شاید مارکوس نے فون رکھ دیا ہے۔ پھر اپنے آپ کو فلپائن کا نجات دہندہ سمجھنے والے لیڈر کی کمزور، تھکی آواز ابھری، مجھے اس سے بہت مایوسی ہوئی۔
10بجے رات مسز امیلڈا مارکوس نے امریکی خاتون اول نینسی ریگن کو فون کیا اور دریافت کیا کہ ہمیں کہاں لے جایا جائے گا؟ نینسی ریگن جواس صورتحال سے پوری طرح باخبر تھی، اس نے اپنے مخصوص سرد لہجے میں جواب دیا، مارکوس فیملی کو امریکا میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اگرچہ بہتر یہی ہوتا کہ آپ کسی دوسرے ملک چلے جاتے، مگر بدقسمتی سے کوئی ملک آپ کو لینے کیلئے تیار نہیں۔ اب مجبورا ہم نے جزیرہ ہوائی میں آپ لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا ہے۔ یوں 25فروری کو امریکی وقت کے مطابق صبح 7 بجے مارکوس، اس کے اہل خانہ، ملازمین اور بعض قابل اعتماد مشیر جنہیں سویلین حکومت سے سزا ملنے کا خدشہ تھا، 4امریکی ہیلی کاپٹروں پرفلپائن سے روانہ ہوگئے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ صدر ریگن کے دور میں 6سال تک وائٹ ہائوس کے ترجمان رہنے والے لیری اسپیکس نے اس سارے ڈرامے کی تفصیل اپنی کتاب میں رقم کی ہے۔ لیری اسپیکس نے اس فیصلے کو دانشمندانہ اور عقلمندانہ قرار دیا اور اس کا کریڈٹ صدر ریگن اور ان کی ٹیم کو دیا جنہوں نے ضد پر اڑے رہنے کی بجائے وقت کی اہمیت اور سنگینی کو سمجھا۔
اب آج کے وائٹ ہاؤس، آج کے امریکا اور صدر امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج آکھڑا ہوا ہے۔ یہ ان کے ہمیشہ کے قابل اعتماد ترین حلیف اور مڈل ایسٹ میں ان کے فرنٹ کنٹری اسرائیل کے سفاک، بے رحم اور عاقبت نااندیش وزیراعظم نتن یاہو کو ڈیل کرنا ہے۔ ممکن ہے صدر ٹرمپ، ان کی ٹیم یا ایڈمنسٹریشن کو اس کا احسا س نہ ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت نے وہ تمام بلنڈرز کر ڈالے ہیں، وہ تباہ کن غلطیاں، حماقتیں اور بدترین مظالم جس کے بعد یورپ میں ان کے خلاف رائے عامہ کی شدید لہر امنڈ آئی۔ نتن یاہو امریکا کیلئے ایک ایسا بیگیج یا فالتو بیکار بوجھ بن چکا ہے کہ اس سے چھٹکار ا پانا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ افسوس آج کے وائٹ ہاوس میں امریکی تاریخ کی سب سے ناتجربہ کار، عاقبت نااندیش اور حقیقی مشاورت سے عاری ایڈمنسٹریشن اور ان کا صدر موجود ہے۔ ٹرمپ یہ بات سمجھ ہی نہیں رہے کہ امریکا جس قدر مزید اسرائیل کا ساتھ دے گا، اتنا ہی مزید نقصان ہوگا۔ اسرائیل کے قطر پر حملے ہی نے عرب دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ نئی صف بندی، نئے جوڑتوڑ اور نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا ایران خیر مقدم کرے گا؟ ایسا مگر ہوا ہے، ابھی مزید بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
امریکا مڈل ایسٹ میں اپنا اثروسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے، وہ ریئر ارتھ منرلز اور دیگر شعبوں میں اپنے آپ کو اہم اور متعلق رکھنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا غزہ میں امن کے حوالے سے فارمولا بھی سامنے آ چکا ہے۔ اہم مسلم ممالک نے بعض شرائط اور تحفظات کے ساتھ اس کی حمایت بھی کر دی ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو یہ بات مگر سمجھنا ہوگی کہ مڈل ایسٹ میں امن تب ہی قائم ہوسکتا ہے جب وہ اسرائیل کے جارحانہ مزاج وزیراعظم کو روک سکیں، کنٹرول کر پائیں اور اسے امن کو سبوتاژ کرنے کا موقع نہ دیں۔ امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک خاص حد کے بعد بیگیج خواہ وہ ضروری بھی ہو، نقصان دہ اور کربناک ہوجاتا ہے۔ بوجھ مسلسل اٹھائے رکھنا کمر توڑ دیتا ہے۔