آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جائزہ لیجئے، آپ نے دعوت دین کا آغاز کیا تو اپنے ہی دشمن بن گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، بائیکاٹ کیا گیا، رشتے ناتے توڑے گئے، دھن، دولت، مال و منال کے لالچ دیے گئے، جبر و تشدد کا راستہ اپنایا گیا، دنیا میں کسی پر دبائو ڈالنے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں، سبھی استعمال کیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اسلام لانے والوں کی زندگی اتنی اجیرن ہوئی کہ انہیں ہجرت کرنا پڑی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا۔ بھوکا پیاسا رکھا گیا، میل جول بند کردیا گیا۔ اتنی تکالیف دی گئیں کہ آپ نے قریش مکہ کے اردگرد 33قبائل کو دعوت دین دینا شروع کردی۔ یہ بھی ان بدبختوں سے برداشت نہ ہوا تو قتل کے درپے ہونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطعم بن عدی سے سیکورٹی لینا پڑی۔ پھر وہ لمحہ آگیا کہ سب قبائل نے مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا ناپاک منصوبہ بنالیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا، رات کے پچھلے پہر مکہ سے نکل کر غار ثور میں پناہ لینا پڑی۔ پھر وہاں سے پیدل اور اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ منورہ کا سفر طے کرنا پڑا۔
مدینہ منورہ پہنچے تو چیلنجز کا یہ سیلاب تھما نہیں، حق کے ٹمٹماتے چراغ کو کفر کی آندھیاں مٹانے کے درپے تھیں، ادھر منافقین کی شکل میں ایک گروہ مدینہ منورہ میں بھی پیدا ہوچکا تھا، تیسری طرف یہودی تھے جن سے معاہدہ ہوچکا تھا مگر وہ درپردہ ایک چیلنج کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے۔ ایک لمحے کو ذرا سوچیے، ساڑھے آٹھ سال میں 27غزوات لڑنا پڑے۔ ہر سال میں اوسطا ساڑھے تین جنگیں۔ جنگیں بھی ایسی کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی جاں نثار جام شہادت نوش کر رہے ہیں، عزیز از جان چچا شہید ہوگئے، ایک ہزار میں سے ستر صحابہ جام شہادت نوش کرگئے، یعنی سات فیصد صحابی جام شہادت نوش کرگئے، عین جنگ کے طبل پر چوٹ پڑنے والی تھی کہ منافقین کا دستہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ گیا۔ دندانِ مبارک شہید ہوئے، لشکر اسلام ایک موقع پر تتر بتر ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیلادی گئی۔
پھر ایک مرحلہ وہ آیا جب ہر بلندی و پستی سے دشمن کا ٹڈی دل لشکر ابل ابل آیا۔ دل کلیجوں کو آنے لگے اور اللہ کی مدد و نصرت پر خیالات و افکار کی آندھیاں چھانے لگیں۔ یہود بے بہبود دغا دے گئے، قبیلوں کے قبیلے لڑنے کو آپہنچے، لگتا تھا دشمن کا لشکر آندھی اور طوفان کی طرح آئے گا اور ہر چیز بہا لے جائے گا۔ پھر غزوہ حنین آپہنچا، دیکھتے ہی دیکھتے دشمن نے کایا پلٹ کر رکھ دیا، زمین تنگ پڑ گئی اور ہزیمت کا داغ لگنے ہی والا تھا۔
اسی پر بس نہیں پھر روم و فارس بپھر گئے، دجلہ و فرات کے پار سے سنگینوں اور نیزوں کا رخ اس نومولود ریاستِ مدینہ کی طرف ہوگیا، ادھر بحیرہ روم کے پاس سے سازشوں کے تانے بانے بنے جانے لگے۔ اس حال میں دنیا سے پردہ فرمایا کہ منافقین کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، ان کے نام اپنے راز دان کو بتاگئے، سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں لشکر اسلام کوچ کرنے والا تھا اور چیلنجز سے بھرپور زندگی گزار کر سید الاولین و الآخرین دنیا سے رخصت ہوچلے۔ صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم۔
لیکن قارئین گرامی! آپ نے کبھی سیرت کے کسی باب میں پڑھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چیلنجز سے اکتا گئے ہوں، کبھی مایوسی کا کوئی جملہ سیرت کے کسی صفحے پر دیکھا؟ کبھی مایوس ہوئے یا مایوسی پھیلائی؟ کبھی کوئی جملہ معیار سے گرا ہوا دیکھا؟ کبھی امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے پایا؟ ہمیشہ صبر کی تلقین کی یا بے صبری کی؟ ہمیشہ امید جگائی یا ناامیدی پھیلائی؟ میرے بھائی ہم اور آپ بھی تو اسی نبی کے امتی ہیں، ہم بھی تو اسی کے نام لیوا ہیں، ہم میں اتنی نفرت، ناامیدی اور مایوسی کیوں ہے؟ کیا یہ منہج نبوی ہے؟
بدقسمتی سے پاکستان میں منفی خبر کو ہی خبر سمجھا جاتا ہے، ہر منفی چیز پر یقین کرلیا جاتا ہے، منفی اور مایوسی پھیلانے والی باتیں کرنا، انہیں مان لینا، انہیں بلاجھجک اور بلا تصدیق پھیلانا، ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ منفی باتیں کرکے مقبولیت حاصل کرنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، جو جتنی بڑی منفی بات کرتا ہے، قوم اس کو اتنا ہی زیادہ لائک، شیئر اور کمنٹ کرتی ہے۔ ایک عرصے سے جاری اس سطحیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب منفی چیزیں سن سن کر ہماری فکر اور نظریے کا حصہ بن چکی ہیں۔ اسی فکر کے نتیجے میں ہمارے ملک میں ریاست کے باغی پیدا ہو رہے ہیں، ملک چھوڑ کر جانا فیشن بن چکا ہے اور ملک سے نفرت کرنا اور نفرت پھیلانا ہمارے لیے معمول کی چیز بن چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سوچ و فکر سے پیچھا چھڑانے اور امید پھیلانے والوں میں سے بنائے۔ آمین ثم آمین۔