عصا کے بغیر کلیمی!

جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سیشن مکمل ہو چکا ہوگا۔ کیاآپ نے اس سال جنرل اسمبلی کے ہال میں ہونے والی تقریروں کا تجزیہ کیا ہے؟ آپ نے دیکھا ہو گا چھوٹے ممالک کے نمائندہ سربراہان انصاف اور امن کی لمبی چوڑی تقریریں کر رہے تھے۔ کوئی انسانیت کا درس دے رہا تھا، کوئی مظلوموں کے حق میں قرارداد پیش کر رہا تھا اور کوئی امن کے فضائل بیان کررہا تھا، مگر جناب ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایسی تمام تقریوں کو ہوا میں اڑا دیا۔ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے ہال میں کھڑے ہو کر اقوام متحدہ کو ہی کھری کھری سنا دیں جبکہ نیتن یاہو فلسطین، یمن، شام، لبنان اور ایران کے نقشے پر مارکر کے ساتھ نشان لگا کر بتاتا رہا کہ ہم نے یہاں یہاں سے اپنے دشمنوں کو ختم کردیا۔

یہ سب کیا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس دنیا میں الفاظ کی کلیمی اگر طاقت کی عصا سے خالی ہو تو وہ محض بے بنیاد باتیں رہ جاتی ہیں۔ یہاں سچ صرف وہی ہے جس کے پیچھے طاقت اور قوت کھڑی ہے۔ طاقت کے بغیر کوئی نظریہ، کوئی فکر، کوئی مذہب اور کوئی فلسفہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ محض تصورات اور خیالات سے نہ ریاستیں تعمیر ہوتی ہیں نہ تہذیبیں جنم لیتی ہیں۔ قوت ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی فکر کو زمین پر زندہ حقیقت بناتی ہے۔ یہ قوت کبھی علم کی شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے، کبھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صورت میں، کبھی معاشی اور مالیاتی نظام کی صورت میں اور کبھی عسکری طاقت کی صورت میں لیکن آج امت اس بنیادی نکتے کو فراموش کر چکی ہے۔ ہمارے لیے مذہب صرف عبادات اور رسومات تک محدود ہو گیا ہے اور ہم نے بنیادی حقیقت ”طاقت وقوت” کو الگ کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتیں اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دنیا کے فیصلے کر رہی ہیں اور امت اپنے کثرتِ وسائل اور افرادی قوت کے باوجود بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔ امریکا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت ہے، اس کے ہتھیار دنیا بھر میں فیصلے کرتے ہیں، اس کی ٹیکنالوجی دنیا کے مستقبل کا تعین کرتی ہے اور اس کا میڈیا بیانیہ سازی کے ذریعے پوری دنیا کا ذہن بدلتا ہے۔ اسرائیل رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر محض قوت کے بل پر نہ صرف پورے مشرق وَسَطی پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ مسلم دنیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے کہ فلسطینی ریاست کبھی قائم نہیں ہوگی اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اس خاموشی کی وجہ یہ نہیں کہ دنیا کو انصاف عزیز نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے پیچھے امریکا جیسی قوت کھڑی ہے۔

اب ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ دنیا میں اخلاقیات، انصاف، قانون اور ضمیر کی ساری باتیں صرف اس وقت وزن رکھتی ہیں جب ان کے پیچھے طاقت کھڑی ہو۔ ورنہ طاقتور اپنی مرضی کے مطابق ”سچ” گھڑ لیتا ہے اور ”جھوٹ” کو بھی سچ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں فیصلے ہمیشہ طاقتور کے حق میں ہوتے ہیں اور کمزور ملک صرف قراردادوں کے سہارے آنسو پونچھتے رہ جاتے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور اب فلسطین یہ سب زخم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم قوت کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ امت مسلمہ کے پاس وسائل کی کمی نہیں، تیل، گیس، معدنیات، نوجوان آبادی، زرخیز زمینیں اور اہم جغرافیائی محل وقوع یہ سب کچھ ہمارے پاس ہے لیکن ہم نے اپنی اجتماعی قوت کو منظم کرنے کی بجائے اسے دوسروں کیلئے آؤٹ سورس کر دیا ہے۔ ہمارا سرمایہ مغربی بینکوں میں پڑا ہے، ہماری افرادی قوت مغربی کمپنیوں کی خدمت کر رہی ہے، ہماری جامعات تحقیق کی بجائے محض ڈگریاں بانٹنے کے مراکز بن گئی ہیں اور ہماری فوجیں اپنے عوام پر رعب جمانے میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوہا جو ہم نے اپنی تلواروں میں ڈھالنا تھا، ہم اس سے ہتھکڑیاں بنا رہے ہیں۔ ہماری مساجد عبادات تک محدود ہو چکی ہیں۔ عبادات کا مقصد انسان کو قوت، تخلیق اور حرکت کی طرف ابھارنا تھا مگر ہم نے ان کو کمزوروں کی پناہ گاہ بنا دیا ہے جہاں بیٹھ کر طاقتور کے خلاف بددعائیں کی جاتی ہیں۔ بددعائیں بھی اسی وقت قبول ہوتی ہیں جب انسان خود عملی طور پر قدم آگے بڑھاتا ہے۔ آج مغرب کو ہماری نمازوں اور روزوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ جب تک ہم عبادات تک محدود ہیں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں لیکن جیسے ہی ہم اپنی عبادات کو قوت، نظام، سیاست، سائنس اور معیشت میں ڈھالنے لگیں گے تو وہ ہمیں برداشت نہیں کریں گے۔ وہ خوشی خوشی آپ کو عبادات کرنے دیتے ہیں لیکن اگر آپ نے اپنا سسٹم اور اپنی طاقت ان کے مقابل لانے کی کوشش کی تو وہ آپ کو کچل ڈالیں گے۔ ایران نے بزعم خود اسلامی نظام نافذ کر رکھا ہے مگر امریکا اور اسرائیل کو اس سے کوئی تکلیف نہیں لیکن اگر ایران طاقت و قوت کا مظہر ایٹم بم بنائے گا تو وہ اسے کبھی نہیں بنانے دیں گے۔

امریکا اپنی قوت کی بنا پر دنیا کی سیاست کا نقشہ بدل رہا ہے۔ اسرائیل اپنی عسکری طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے سہارے پورے خطے کو یرغمال بنائے ہوئے ہے لیکن ڈیڑھ ارب مسلمان ان کے سامنے بے بس کھڑے ہیں، ان کے پاس وسائل تو ہیں مگر وہ بکھرے ہوئے ہیں، ان کے پاس نوجوان تو ہیں مگر وہ استعمال نہیں ہو رہے، ان کے پاس دولت تو ہے مگر وہ مغربی بینکوں کی زینت ہے، ان کے پاس مذہب تو ہے مگر قوت کے بغیر۔ ان کے پاس کلیمی تو ہے مگر عصا کے بغیر۔ آج یہی وہ نکتہ ہے جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے مذہب کو صرف عبادات اور رسومات تک محدود کرکے قوت کے پہلو کو فراموش کر دیا۔ اگر ہم واقعی مذہبی ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ تخلیق، تحقیق، علم اور سائنس کی پیاس ہونی چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے آج ہمارے نوجوان مغرب کی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے گاہک تو ہیں مگر ان کے خالق نہیں۔

ہم جب تک قوت پیدا نہیں کریں گے ہم اپنی عبادات کے ثمرات بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ قوت اور طاقت سچائی سے زیادہ مقدس ہیں کیونکہ قوت ہی سچ کو قائم رکھتی ہے۔ خدا کا پہلا تعارف سچ نہیں، طاقت اور قوت ہے۔ ہمیں اپنی عبادات کو قوت کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ قوت علم سے، قوت سائنس سے، قوت معیشت سے، قوت سیاست سے۔ تبھی ہم دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عزت اور مقام واپس حاصل کر سکیں گے۔

یہی پیغام آج ہمیں اپنی مساجد، اپنی جامعات، اپنے ذرائع ابلاغ اور اپنی سیاست سے دینا ہوگا کہ قوت کے بغیر مذہب صرف فلسفہ ہے اور فلسفہ کبھی تحریک پیدا نہیں کرتا۔ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو ہماری نسلیں بھی اسی طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی اور ہمارے وسائل دوسروں کے لیے استعمال ہوتے رہیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی عبادات کو قوت میں بدلیں، اپنی کمزوری کو طاقت میں ڈھالیں اور اپنی بے بسی کو تخلیق کی آگ میں جھونک کر نئی دنیا کی تعمیر کریں۔ یہی مذہب کا اصل پیغام ہے اور یہی ہماری نجات کا واحد راستہ۔