اسلام آباد:سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ معطل کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری کردیا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ تھے۔
جسٹس طارق جہانگیری سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز سپریم کورٹ پہنچے، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحاق، جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی سپریم کورٹ پہنچیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچوں ججز عام سائلین والے راستے سے سپریم کورٹ میں داخل ہوئے۔
اس موقع پر جسٹس طارق محمود جہانگیری سے مبینہ جعلی ڈگری کا سوال کیا گیا،صحافی نے پوچھا کہ کراچی یونیورسٹی نے آپ کی ڈگری منسوخ کردی کیا عدالت جائیں گے؟، جسٹس جہانگیری نے جواب دیا کہ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے، حیرت کی بات ہے 34 سال بعد ڈگری منسوخ کررہے ہیں، دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس تو کیس صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے عبوری حکم کی حد تک ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 18 اکتوبر کو بلا لیا گیا ہے۔جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ اس سوال پر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعترضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ حال ہی میں جسٹس جمال خان کا فیصلہ ہے جج جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔
منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ 16 ماہ تک جسٹس جہانگیری کے خلاف اس کیس میں نہ کسی کو حساسیت نظر آئی نا ہی کسی نے شدت پر بات کی، اچانک آرڈر دیا گیا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر التوا ہے جج کو کام سے روکا جاتا ہے، ملک اسد علی کیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جج کو جوڈیشل ورک سے روکا گیا، عبوری حکم کے ذریعے جج کو عدالتی امور سے روکا نہیں جا سکتا۔
منیر اے ملک نے دلیل دی کہ یک طرفہ طور پر فیصلہ کیا گیا جج کے خلاف رٹ نہیں ہو سکتی،ایڈوکیٹ میاں داؤد نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے سجاد علی شاہ کو جوڈیشل ورک سے روکا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو کام سے روکنے کا آرڈر آرٹیکل 184/3 کی درخواست پر دیا گیا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ کیس کے حقائق اس کیس سے الگ ہیں۔
منیر اے ملک نے استدعا کی کہ آئینی بینچ جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے معطل کرے، کام سے روکنے کا حکم نامہ معطل نا کیا گیا تو غلط سگنل جائے گا، کیونکہ جج نے ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ جج کو جوڈیشل ورک سے روکا نہیں جا سکتا۔سماعت کے اختتام پر جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے درمیان مشاورت ہوئی، ججز کی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ معطل کر دیا۔
عدالت نے فریقین اور اٹارنی جنرل دفتر کو نوٹس جاری کردیا، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کردیا اور کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔