مصنوعی ذہانت اور مستقبل کے دارالافتائ

گزشتہ سے پیوستہ:
گزشتہ چند سالوں میں مصنوعی ذہانت کے اندر مزید ترقی ہوئی ہے اور اب لارج لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایم) وجود میں آچکے ہیں جو جنریٹیو مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ نیز اب تو ”ریگ” کے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز بھی فتویٰ نویسی میں استعمال ہونے لگ گئے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی اس ترقی کو استعمال کرتے ہوئے اس وقت عالمی و قومی سطح پر فتویٰ نویسی کے لیے مصنوعی ذہانت کا ماڈل تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور کچھ لوگوں نے ایسے ماڈل تیار بھی کرلیے ہیں، مثلاً چیٹ جی پی ٹی کی ویب سائٹ پر تلاش کرنے سے ”مفتی جی پی ٹی”، ”حلال جی پی ٹی”، ”فتویٰ جی پی ٹی”، ”شریعہ ایڈوائزر جی پی ٹی”، ”شریعہ کمپلائنس جی پی ٹی” اور دیگر کئی اقسام کے جی پی ٹی مل جاتے ہیں۔ نیز یہ کام اتنا آسان ہو چکا ہے کہ کوئی بھی شخص چیٹ جی پی ٹی کی ویب سائٹ پر جائے اور اپنی ضروریات کے مطابق اپنا جی پی ٹی لانچ کر دے۔

آسان الفاظ میں ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر (پروگرام) بنایا جاتا ہے جو جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی صارف کے پوچھے گئے دینی سوالات کا جواب فتویٰ کی صورت میں دیتا ہے، مثلاً کسی شخص نے سوال پوچھا کہ شراب حلال ہے تو یہ مصنوعی ذہانت کا ماڈل خود اپنی مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے فتویٰ جاری کرے گا اور اس شخص کے سوال کا جواب دے گا اور یہ جواب مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی ٹریننگ پر انحصار کرے گا۔ یعنی آج تک جتنے بھی سوالات شراب سے متعلق پوچھے گئے اور آج تک جتنے بھی جوابات فتویٰ کی صورت میں جاری کیے گئے، نیز انٹرنیٹ پر موجود تمام مواد جس میں تفسیر، احادیث و فقہائے کرام کی کتابیں موجود ہیں اور اس کے علاوہ دنیا بھر میں جدید شائع شدہ مواد جو انٹرنیٹ پر موجود ہے، ان سب سے استفادہ کرکے، تخمینہ کی بنیاد پر فتویٰ جاری کرے گا یعنی اس کے لیے پہلے سے جاری کیے گئے تمام فتاویٰ کے پیٹرن اور رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے ان فتاویٰ کی درجہ بندی کرے اور نتائج اخذ کرے اور ان اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت (کمپیوٹر یا مشین) نئے فتاویٰ کی پیشین گوئی کرے گا۔ ایسا کرنے میں جو جواب آئے گا وہ پچھلے جوابات کا مرکب ہوگا اور اس میں مصنوعی ذہانت اپنی طرف سے بھی مواد کا اضافہ کر سکتا ہے۔

قارئین کی مزید آسانی کے لیے واضح کرتے چلیں کہ اگر کئی فتاوی مختلف دارالافتاء سے شراب کے حرام ہونے کے جاری ہو چکے ہیں، کئی فقہی کتب میں شراب کی حرمت پر دلائل دیے گئے ہیں تو یہ کچھ مواد ایک جگہ سے لے گا اور کچھ دوسری جگہ سے، اور اس کو انتہائی شائستہ اسلوب میں بطور جواب پیش کر دے گا۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی طرف سے حوالہ اور عبارت پیش کرے جو کہ قواعد زبان، صرف و نحو کے حساب سے تو درست ہو مگر وہ من گھڑت ہو اور وہ کسی کتاب یا بنیادی مآخذ میں سرے سے موجود ہی نہ ہو۔

یہ فتویٰ نویسی کا ایک نیا اسلوب ہے اور اس کے اندر سائلین کے سوالات کے جوابات مصنوعی ذہانت کے ماڈلز تخمینہ کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ دیئے گئے جوابات اتنی عمدہ، سلیس، اور شائستہ زبان میں دیئے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے اور ایک عام انسان ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جب کبھی ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے ایسے مشکل سوالات پوچھے جاتے ہیں جو فرقہ وارانہ اختلافات کو ظاہرکرتے ہیں یا کسی خاص گروہ یا طبقے کے عقائد سے متعلق ہوتے ہیں تو یہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز ایسے طریقے سے جواب دیتے ہیں کہ (بعض لوگوں کے مطابق) وہ جوابات انتہائی معتدل ہوتے ہیں اور کسی گروہ کی تنقیص، تردید، اور مذمت نہیں ہوتی۔ یعنی جوابات سیاسی قسم کے ہوتے ہیں جس سے کسی کی بھی دل شکنی و دل آزاری نہ ہو۔ ان جوابات کو مزید معتبر بنانے کیلئے یہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور فقہی حوالہ جات بھی فراہم کرتے ہیں جس سے عام سائل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

خلاصہ کلام یہ کہ بعض حلقوں کی جانب سے فتویٰ نویسی کے اس نئے اسلوب کو اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور بعض دارالافتاء نے مصنوعی ذہانت کو بطور معاون استعمال بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ طرزِ عمل اکابر مفتیانِ کرام اور ان بڑے مدارسِ دینیہ کے منہج کے سراسر خلاف ہے۔ راقم بطور کمپیوٹر سائنسدان یہ گزارش کرے گا کہ خدارا تخصص کے طلبہ کے مستقبل سے مت کھیلئے اور ان کی علمی و فقہی استعداد بننے دیجئے۔ نیز اکابرینِ مدارسِ دینیہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تخصص کے طلبہ کرام مصنوعی ذہانت کو فتویٰ نویسی میں سرے سے استعمال ہی نہ کریں۔