بھٹو، اے ایچ کاردار اور معین قریشی

یہ 70 کے عشرے کی ایک دوپہر کا قصہ ہے۔ بھٹو صاحب وزارت عظمی سے معزول کیے جا چکے تھے۔ بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر الطاف کے گھر لیجنڈ کرکٹر اے ایچ کاردار اور مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر اجمل اکٹھے ہوئے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے مداح اور جونیئر افسر اقبال دیوان بھی بطور افسر مہمانداری موجود تھے۔ اے ایچ کاردار پاکستانی کرکٹ کی دیوقامت شخصیت رہے ہیں، وہ قومی ٹیم کے سابق کپتان تھے، پاکستانی کرکٹ ٹیم انہوں نے بنائی اور پھر انگلینڈ، انڈیا جیسی بڑی ٹیموں کو شکست دے کر اپنا لوہا منوایا۔ کاردار صرف کرکٹر ہی نہیں تھے، وہ کئی شعبوں میں بہت احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ بھٹو صاحب کاردار کے بڑے مداح تھے، انہوں نے کاردار کو صوبائی وزیر تعلیم بنایا۔ ڈاکٹر اجمل ملک چوٹی کے ماہر نفسیات تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج میں شعبہ نفسیات کے بانی، بعد میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور پھر وزیراعظم بھٹو کے دور میں سیکریٹری وزارت تعلیم بھی رہے۔ ڈاکٹر اجمل پاک فوج میں نفسیاتی جنگ کے شعبے کے مشیر بھی رہے۔

لنچ میں کاردار اور ڈاکٹر اجمل دونوں نے ایک دوسرے سے پوچھ لیا کہ ان سے کیا ایسی خطا ہوئی کہ وزیراعظم بھٹو نے آنا فانا انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔ ڈاکٹر اجمل نے بتانے میں پہل کی۔ وہ کہنے لگے کہ بھٹو دور میں افغانستان کے صدر سردار داؤد پاکستان کے سخت مخالف تھے، ان کے ایما پر پختونستان کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ اگست 1976میں سردار داؤد پاکستان کے دورے پر آئے تو بھٹو صاحب نے ہوشیاری دکھائی اور ڈاکٹر اجمل کو سرکاری مجالس میں شامل رکھا تاکہ وہ سردار داؤد کو سن کر ان کی نفسیاتی پروفائلنگ کر سکیں۔ جب افغان صدر رخصت ہوئے تو انہیں ایئرپورٹ پر رخصت کر کے واپسی پر وزیراعظم بھٹو نے ڈاکٹر اجمل کو ساتھ بٹھا لیا اور ان سے سردار داؤد کی شخصیت کے بارے میں سوال پوچھنے لگے۔ بھٹو خود ذہین اور صاحب مطالعہ شخص تھے، انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص دوران گفتگو ایک لفظ بار بار استعمال کرے تو کیا اس لفظ کو اس کی شخصیت کے حوالے سے کی ورڈ کہا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر اجمل نے اس نکتہ کی تائید کی۔ بھٹو کہنے لگے کہ داؤد اپنی گفتگو میں بار بار لفظ ڈیسنٹ استعمال کر رہا تھا تو کیا وہ غیرشعوری طور پر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ بہت نفیس اور اعلی شخصیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر اجمل نے اس مشاہدے کی داد دیتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی ہے، ویسے بھی سردار داؤد کا تعلق ایک باوقار روایتی شاہی گھرانے سے ہے۔ (یاد رہے کہ سردار داؤد افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے کزن تھے اور ان کا تختہ الٹ کر صدر بنے تھے۔) ڈاکٹر اجمل کہتے ہیں، اس جواب کو سن کر دو منٹ تک بھٹو خاموش رہے اور پھر ان کی جانب سے ایک بم شیل آیا، بھٹو نے کہا، ڈاکٹر صاحب اللہ کو گواہ بنا کر ایمانداری سے مجھے بتائیں کہ میں کون سا لفظ دوران گفتگو استعمال کرتا ہوں؟ ڈاکٹر اجمل نے یہ واقعہ سنا کر کاردار جو اپنے حلقے میں اسکپر (کپتان)کے نام سے پکارے جاتے تھے، انہیں کہا، اسکپر میں نے کچھ زیادہ ہی ایمانداری دکھائی اور کہہ دیا کہ پرائم منسٹر آپ غیرشعوری طور پر لفظ سیڈسٹ (Sadist) کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ (واضح رہے کہ سیڈسٹ سے مراد اذیت پسند، وہ جو دوسروں کو تکلیف پہنچا کر شدید لطف لے۔) ڈاکٹر اجمل کے بقول مجھے لگا کہ بھٹو غصے سے بھڑک اٹھے۔ ان پر کپکپی طاری تھی، عمر اور منصب کا خیال نہ ہوتا تو شاید وہ مجھ پر ٹوٹ پڑتے۔ وزیراعظم ہاؤس کی پورچ میں گاڑی سے بغیر خدا حافظ کیے اتر کر اندر چلے گئے، اگلے روز میری سیکریٹری وزارت تعلیم کے عہدے سے چھٹی ہو گئی۔

اب کاردار کی باری تھی، ان سے پوچھا گیا کہ بھٹو کیوں ناراض ہوئے کیونکہ وہ تو کاردار کے بڑے مداح تھے اور انہیں اپنا ہیرو اورا سکپر کہا کرتے تھے، جب وہ بمبئی میں طالب علم تھے تو گھنٹوں اپنے بھائی امداد علی بھٹو کے ساتھ کاردار کو بیٹنگ کرتے دیکھنے آتے۔ کاردار نے ماجرا سنایا کہ جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو میری خواہش تھی کہ مرکز میں وزارت کھیل اور تعلیم کا قلمدان میرے پاس ہو۔ تاہم بھٹو نے پنجاب میں وزیر تعلیم بنا دیا۔ تعلیمی اداروں کو قومیانے کے حوالے سے لاہور میں صوبائی کابینہ کی میٹنگ چل رہی تھی۔ سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر طارق صدیقی نے ایک نکتے پر اختلاف کیا تو وزیراعظم بھٹو نے اسے اپنی مخالفت سمجھا۔ ویسے تو اصولی طور پر وزیراعظم کا صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کا جواز ہی نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے سیکریٹری تعلیم کے بارے میں کچھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا تو کاردار نے بھرے اجلاس میں کہہ دیا، جناب وزیراعظم، صوبائی سیکریٹری قابل ترین افسر ہیں اور تعلیم کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں کہ ہمارا اجتماعی نالج بھی اس سے کم ہوگا۔ کاردار کہنے لگے کہ میرے ذہن میں وہ ممبئی والا فین ٹائپ بھٹو تھا۔ بھول گیا کہ اقتدار کی بلندی پر آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، اس سے سر چکرانے لگتا ہے۔ بھٹو نے کاردار کی بھی وزارت سے چھٹی کرا دی۔

یہ واقعہ ایک نئی بہت دلچسپ بائیوگرافی میں گزشتہ روز ہی پڑھا۔ بیوروکریٹ، ادیب اقبال دیوان اس کے مصنف ہیں۔ کتابوں کے حوالے سے بائیوگرافی یا خودنوشت میری پسندیدہ کیٹیگری ہے۔ خود نوشت کسی سیاستدان کی ہو، بیوروکریٹ، کھلاڑی، اداکار یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کی، اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس سے اخذ کیا جا سکے، جو کام آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی اور تجربات کا نچوڑ اپنی بائیوگرافی میں بیان کرتے ہیں۔

اقبال دیوان کا تعلق کراچی کی گجراتی، میمن برادری سے ہے، ان کے اجداد جونا گڑھ ریاست میں اہم انتظامی ذمہ داریوں پر فائز رہے، دیوان (وزیر) اسی مناسبت سے ساتھ لگتا ہے۔ اقبال دیوان پہلے مرکزی سول سروس اور پھر سندھ کی صوبائی سروس کا حصہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اقبال دیوان لکھنے کی طرف آئے اور فکشن میں بہت عمدہ اضافہ کیا، ان کے تین ناول اور تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اقبال دیوان نے کراچی کی انتظامیہ میں طویل عرصہ کام کیا اور وہ بہت سے کرداروں سے ذاتی طور پر واقف ہیں۔

معین قریشی جب سنہ 1993میں نگران وزیراعظم کے طور پر سنگارپور سے پاکستان وارد ہوئے، تو انہیں ایئرپورٹ پر ریسیو کرنے کی ذمہ داری اقبال دیوان کی لگائی گئی۔ تب کوئی بھی معین قریشی کی صورت سے واقف نہیں تھا۔ اقبال دیوان نے غیرملکی ایئرلائن کی غیرملکی ایئرہوسٹس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ فرسٹ کلاس میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو یقینی طور پر پاکستان کا وزیراعظم ہو سکتا ہے کیونکہ جہاز کے اڑان بھرنے سے لے کر اب تک وہ ہزارہا بار پوچھ چکا ہے کہ کراچی کب لینڈ کریں گے؟ اقبال دیوان نے معین قریشی کو ریسیو کیا، بہانے سے ان کا پاسپورٹ مانگا تو اس پر نام پڑھ کر تسلی ہوئی۔ معین قریشی نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ (حلف اٹھانے کے لیے) میری شیروانی کا انتظام ہوا ہے؟ معین قریشی کے بھائی ایک سفید اور ایک سیاہ شیروانی لے کر آئے تھے۔ نووارد نگران وزیراعظم تک یہ اطلاع پہنچائی گئی تو معین قریشی نے بے تکلفی سے پوچھ لیا، آپ کے خیال میں کون سے رنگ کی شیروانی پہننی چاہیے؟ حاضر جواب اقبال دیوان نے جواب دیا، اگر عہدے کو ولیمہ سمجھتے ہیں تو وائٹ اور اگر سوئم (فیونرل) سمجھیں تو سیاہ۔ مسرور معین قریشی نے ہنس کر کہا، ہنی مون کے لیے کچھ نہیں؟

اقبال دیوان نے ایک اور دلچسپ مشاہدہ بھی رقم کیا، جسے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر ایک صاحب ویلڈنگ والا کالا چشمہ پہنے، شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ پہنے، ہاتھ کی دوسری اور تیسری انگلی کے درمیان بند مٹھی میں سلگتا ہوا سگریٹ تھامے موجود تھے۔ دیکھنے میں وہ کسی فلم کے جاسوس کردار جیسے لگتے۔ جہاز سے اتر کر معین قریشی اپنے بھائی سے ملنے کے بعد تیزی سے اسی جاسوس نما کردار کی طرف بڑھے اور پیار والی جپھی ڈال کر دونوں ایک دوسرے کو یوں اٹھانے لگے جیسے سندھی کشتی ملاکھڑا میں پہلوان ایک دوسرے کو اٹھاتے ہیں۔ موقع پر موجود آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری ہکا بکا یہ دیکھ رہے تھے۔ بعد میں معین قریشی انہی صاحب کو اپنے ساتھ جہاز میں بٹھا کر اسلام آباد لے گئے۔ معین قریشی کی فرمائش پر جہاز میں ایک اور مسافر کو بھی سکیورٹی سے بچ بچا کر خاموشی سے سوار کرایا گیا، مگر اس کی تفصیل رہنے دیتے ہیں۔ اقبال دیوان کو بعد میں پتہ چلا کہ وہ مخصوص انداز میں سگریٹ پھونکنے والے صاحب سندھ پولیس کی جانب سے ایف آئی اے میں ڈپوٹیشن پر تعینات ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ بعد میں معین قریشی تین بار کراچی تشریف لائے تو ڈائریکٹر پروٹوکول اقبال دیوان نے مشاہدہ کیا کہ کراچی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں وہی شخص ان کی خواب گاہ میں داخل ہونے والا پہلا اور آخری افسر ہوتا، ہاتھوں میں خاص فائلیں ہوتیں۔ انہی صاحب نے ایک دن اقبال دیوان سے کہا کہ کسٹم یا ایف آئی اے کہاں جانا ہے، درخواست لکھ کر دو، ابھی آرڈر کرا دیتا ہوں۔ پھر فخر سے بتایا میں بھی شروع میں ایئرپورٹ تھانے میں ہیڈ کانسٹیبل تھا، آپ بھی ہمت پکڑیں ورنہ پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ تھا ہمارے امپورٹڈ نگران وزیراعظم کا سنہری دور!