پاکستانی معاشرہ اس وقت ایک نہایت سنگین مگر نظرانداز شدہ بحران کا شکار ہے۔ اسے مجموعی بے حسی کہیں یا مسابقت کی دوڑ کا شاخسانہ کہ ہم نے اپنی ذات سے ہٹ کر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ تیز رفتار ترقی نے اخلاقی قدروں کو زوال کا شکار کر دیا ہے۔ اب تو جس کا درد ہے وہ اسی کا درد ہے۔ ہمدرد ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ یہ رپورٹ پڑھ کر دل کانپ گیا کہ ملکِ عزیز میں 35سال سے زائد عمر کی ایک کروڑ سے زائد بیٹیاں شادی کیے بغیر ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ چند سال بعد جب یہ بیٹیاں بوڑھی ہو جائیں گی تو کون ان کا سہارا بنے گا؟ جب والدیں دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور بھائی اپنی شادی کے بعد اپنی اولاد کی فکروں میں مگن ہو جائیں گے تو سماجی تنہائی کا شکار ان بیٹیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ جب بڑھاپا انہیں کمزور کر دے گا اور کام کاج کرنے کے قابل یہ نہیں رہیں گی تو کون انہیں سنبھالے گا؟ اولاد والوں کو تو اولاد سنبھال لیتی ہے، ان بے چاریوں کا والی وارث کون ہوگا؟
شادی جیسے سادہ اور فطری عمل کو ہم نے اتنی رسموں اور دکھاوے میں الجھا دیا ہے کہ یہ سہولت کی بجائے والدین کیلئے ایک نہ ختم ہونے والا امتحان بن گیا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک کروڑ سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کی عمر پینتیس برس سے اوپر ہو چکی ہے اور وہ غیرشادی شدہ ہیں۔ بیٹیوں کی شادی میں سب سے پہلی اور نمایاں رکاوٹ غربت ہے۔ ایک غریب یا متوسط گھرانے کے لیے بیٹی کی شادی ایک کمر توڑ ذمہ داری بن چکی ہے۔ جہیز جیسی لعنت نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ والدین سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر سامان، قیمتی ملبوسات اور زیورات مہیا کریں اور اگر وہ اس بوجھ کو پورا نہ کر سکیں تو بیٹی کے لیے رشتہ آنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کی بے جا رسمیں اور فضول اخراجات بھی والدین کی مشکلات میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں بارات اور ولیمے کی دعوتیں، ہزاروں کی بجائے لاکھوں روپے کے شادی کارڈز، قیمتی ملبوسات اور ڈیزائنر میک اپ پر زور دینا، یہ سب غیر ضروری اخراجات ہیں جنہیں معاشرتی برتری یا عزت کے نام پر لازمی بنا دیا گیا ہے۔ دولہا والوں کی بے جا فرمائشیں اور ڈیمانڈز نے تو معاملہ اور بھی بگاڑ دیا ہے۔ والدین قرض لے کر ایک بیٹی کی شادی کر بھی دیں تو اس قرض کو اتارتے اتارتے کئی سال بیت جاتے ہیں، نتیجتاً باقی بیٹیاں بن بیاہی باپ کی دہلیز پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف خاندانوں کے لئے ذہنی اور مالی دباؤ پیدا کرتی ہے بلکہ معاشرے میں ایک غیر صحت مند مقابلہ بازی اور غیر یقینی کیفیت کو بھی جنم دیتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم و ملازمت بھی اس مسئلے سے جڑی ہے۔ اگر وہ ملازم پیشہ ہوں تو والدین اکثر ان کی تنخواہ کا سہارا لینے لگتے ہیں اور رشتے کو ٹالتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات لڑکی خود کفالت کے غرور میں فیصلہ کرنے میں تاخیر کر دیتی ہے۔ نتیجتاً عمر نکلتی جاتی ہے اور رشتے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں اسٹینڈرڈ ہائی کرنے کے چکر میں سخت محنت کے بعد اعلیٰ عہدہ حاصل کر کے اپنا معیار بلند کر لیتی ہیں مگر تب تک شادی کی عمر گزر چکی ہوتی ہے۔ کسی کو اپنی تعلیمی ڈگری پر ناز ہوتا ہے اور وہ اپنے معیار کے مطابق تعلیم یافتہ لڑکا ڈھونڈتے ڈھونڈتے بالوں میں چاندی اتار لیتی ہے۔
اس سنگین مسئلے کے ممکنہ حل نکال کر ان بیٹیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی کوشش کرنے میں ہم سب کو ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان بیٹیوں کو مستقبل میں نفسیاتی مریض ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت چند ممکنہ اقدامات یہ ہو سکتے ہیں۔
1۔ جہیز کے خاتمے اور فضول خرچی کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی کی جائے۔ جس طرح ایف بی آر نے دولت کی نمود و نمائش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح جہیز لینے اور دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ بے تحاشا جہیز دینے کی قبیح رسم کا خاتمہ ہو سکے۔ امتناعِ جہیز ایکٹ بنا کر اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔
2۔ شادیوں میں سادگی کو رواج دینے کے لیے سوشل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر قومی مہمات چلائی جائیں تاکہ معاشرہ اجتماعی طور پر نمود و نمائش سے نکل کر اصل مقصد، یعنی نکاح، کو اہمیت دے۔
3۔ مذہبی رہنماؤں اور علماء کو اس مسئلے پر فعال اور اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ منبر و محراب سے یہ پیغام دیا جائے کہ شادی دکھاوے یا مقابلے کا نہیں بلکہ سنتِ نبویۖ کی تکمیل کا نام ہے۔
4۔ الیکٹرانک میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈراموں سے لوگ خصوصاً خواتین بہت متاثر ہوتی ہیں۔ ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے فضول خرچی کو پرکشش دکھانے کی بجائے سادہ شادیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ الیکٹرانک میڈیا حقیقت میں ٹرینڈ سیٹر ہے۔ وہ سادگی کا ٹرینڈ سیٹ کرنے کی کامیاب کوشش کر سکتا ہے۔
5۔ والدین کو بیٹی کی کمائی کو اپنی جاگیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کی کمائی کے لالچ میں اس قدر خوددغرض نہیں بن جانا چاہیے کہ بیٹی کی زندگی اور خوشیوں کو قربان کر دیا جائے۔ بیٹوں ہی کی طرح شادی کے فیصلے میں بیٹی کو بھی اختیار اور عزت دی جائے تاکہ وہ بروقت اور مناسب فیصلہ کر سکے۔
6۔ قناعت اور حقیقت پسندی کو فروغ دینا ہوگا۔ نوجوان نسل کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اصل خوشی ایک پُرسکون ازدواجی زندگی ہے، نہ کہ مہنگے زیورات یا قیمتی لگژری اشیائ۔ 7۔ ریاست اور فلاحی ادارے اجتماعی شادیوں کے نظام کو فروغ دیں، تاکہ غریب والدین پر بوجھ کم ہو اور زیادہ سے زیادہ گھرانے آباد ہو سکیں۔ اس سلسلے میں بلدیاتی اداروں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ان اداروں کو فعال کر کے مناسب فنڈز انہیں مہیا کیے جائیں۔ یہ ادارے ہر دو ماہ بعد اپنے اپنے حلقے میں مخصوص تعداد میں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کریں جن میں ہر دولہا اور دلہن کی طرف سے مخصوص تعداد میں مہمانوں کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ مہم غریب والدین کے لیے ایک نعمت ثابت ہو گی۔ اس مہم کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں بیٹیاں اپنے گھر والی ہو جائیں گی۔ یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ شادی کوئی دکھاوا نہیں بلکہ ایک سماجی و دینی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنے رویے اور معیار کو حقیقت پسندی کی طرف نہیں موڑیں گے، یہ مسئلہ نہ صرف ہمارے معاشرے میں تنہائی اور محرومی بڑھاتا رہے گا بلکہ خاندانی نظام کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کرتا جائے گا۔