اس دنیا میں محبت کے کئی رنگ ہیں مگر والدین کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت سب سے نرالی اور خالص ہوتی ہے۔ بیٹیاں تو خاص طور پر رحمتِ خداوندی کا عکس ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کو نہ صرف اپنی سیرت میں نمایاں کیا بلکہ اسے امت کے لیے ایک دائمی پیغام بنا دیا۔گھرانہ نبوت کی فضا میں یہ محبت اپنی حسین ترین صورت میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ چار بیٹیوںسیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ امِ کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ایسا تھا جس میں شفقت، عزت، تکریم اور بے پناہ محبت کے جلوے نمایاں ہیں۔ ان کے نام بھی اس پیار اور دعا کی علامت ہیں جو ایک والد اپنی بیٹی کے لیے رکھتا ہے، چنانچہ زینب کا مطلب ہے خوبصورت منظر اور عمدہ خوشبو والا پاکیزہ درخت۔ رقیہ کا مطلب ہے بلند مرتبہ اور رفعت والی، ام کلثوم کا مطلب ہے خوبصورت خط وخال والی جبکہ فاطمہ کا مطلب ہے تمام غیر پسندیدہ صفات سے دور رہنے والی۔
یہ نام آپ علیہ السلام نے ان کی صحت و عافیت اور نیک بختی کی نیک فالی کے طور پر رکھے۔ گویا ہر نام ایک دعا اور ایک امید تھا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فرماتے، انہیں گو د میں اٹھاتے، سینے سے لگاتے، دعائیں دیتے اور لوگوں کو یہ پیغام دیتے کہ بیٹیاں بوجھ نہیں بلکہ عظیم نعمت ہیں۔ آج بھی ہماری سوسائٹی میں بعض جگہ بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیںسمجھا جاتا۔ ایسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بیٹی دراصل گھر کی زینت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق سب سے زیادہ نمایاں مثال ہے۔ جب وہ آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، پیار بھرے الفاظ کہتے: مرحبا میری بیٹی پھر انہیں بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور عادات میں سب سے زیادہ مشابہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
یہ محبت صرف شفقت تک محدود نہ تھی بلکہ عملی رہنمائی اور زندگی کے فیصلوں میں بھی نمایاں تھی۔ آپ نے بعثت کے بعد اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے دینداری اور اخلاق کو اصل معیار قرار دیا۔ فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دو، ورنہ زمین میں بڑا فتنہ برپا ہوگا۔ یہ تعلیم آج کے دور کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے، جہاں جہیز، رسومات اور دنیاوی تقاضوں نے نکاح کو مشکل بنا دیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹیوں کے گھریلو حالات کا بھی خیال رکھتے۔ اگر کبھی حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان معمولی اختلاف ہو جاتا تو آپ خود ان کے پاس تشریف لے جاتے، دل جوئی کرتے اور صلح کروا دیتے۔ یہ طرزِ عمل والدین کے لیے ایک نمونہ ہے کہ بیٹی کی شادی کے بعد بھی اس کی خبرگیری اور رہنمائی سے ہاتھ نہ کھینچیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کو تحائف دیتے، انہیں زیورات پہناتے اور ان کی نسوانی فطرت کے مطابق خوشی کا سامان فراہم کرتے۔ یہ نہ صرف محبت کا اظہار تھا بلکہ یہ سبق بھی کہ بیٹی کو محرومی کے احساس میں مبتلا نہ کیا جائے۔ آج اس کی ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنے گھروں میں زندہ کریں۔ بیٹیوں کے ساتھ محبت، عزت اور شفقت کو معمول بنائیں۔ انہیں تعلیم و تربیت دیں اور سب سے بڑھ کر انہیں وہ اعتماد دیں جو ایک بیٹی کو باوقار زندگی کے لیے چاہیے۔بیٹیاں محض گھروں کی رونق نہیں بلکہ معاشرے کا مستقبل ہیں۔ وہی آنے والے وقت کی مائیں ہیں جو نئی نسل کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو یا تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں تعلیم و تربیت دی اور پھر ان کی شادی کی، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ یوں ہوگا اور آپ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلیوں کو جوڑ کر دکھایا۔ یہ فضیلت بیٹی کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔اس لیے بیٹی کو بوجھ نہ سمجھیں۔ وہ اللہ کی امانت ہے، گھروں کی رحمت ہے اور والدین کیلئے جنت کا ذریعہ ہے۔ آج کے اس بے رحم دور میں جب بیٹیوں پر ظلم و زیادتی کی خبریں آئے دن سننے کو ملتی ہیں، ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سامنے رکھنا ہوگا۔
بیٹی اگر گھر کی زینت ہے تو باپ کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ بھی ہے اور وہ سرمایہ جسے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ سنبھال کر رکھا، اس کی عظمت میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔بیٹیاں دنیا کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ہیں۔ اگر ان کی اچھی تربیت کی جائے تو وہ دنیا میں سہارا اور مددگار بنتی ہیں اور آخرت میں دوزخ سے بچا کا ذریعہ۔ بیٹیاں نازک اور خوبصورت ہوتی ہیں، ان کے وجود سے دل کو سکون اور ان کی خوشی دیکھ کر قلب کو مسرت ملتی ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کے بارے میں کہا گیا ہے:بیٹیوں کے ساتھ شیشے کے برتنوں جیسا برتا کرو، کیونکہ وہ نہایت نازک اور لاڈلی ہوتی ہیں۔ بیٹیوں کی عزت صرف باعزت اور شریف لوگ کرتے ہیں اور ان کی توہین صرف کمینے اور بے قدر لوگ ہی کرتے ہیں۔