چوتھی قسط:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کرنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود آپ کی سنّتِ مبارکہ بھی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے مصدَّقہ اور ثقہ کتاب قرآنِ کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمة للعالمین’ عزیز’ رئوف’ رحیم’ شاہد’ مبشِر (جنت کی بشارت دینے والا)’ نذیر (جہنم سے ڈرانے والا)’ سراج منیر (روشن کرنے والا آفتاب)’ یَا اَیھَا المزَّمِّل’ یَا اَیھَا المدَّثِّر ( اے چادر لپیٹنے والے) اور ان جیسے عظیم القاب سے نوازا ہے’ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ادا میں دیکھا’ اسی وصف کے ساتھ آپ کو مخاطَب فرمایا۔ اِسی طرح قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کو ‘عزت و وجاہت والا’ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ‘اے ایمان والو! اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی’ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو (اُن لوگوں کے الزام) سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک وجاہت والے تھے’ (الاحزاب: 69)۔ (2) ”(یاد کیجیے!) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اللہ تمہیں اپنی طرف سے (ایک خاص ) کلمے کی خوش خبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں بڑا معزز ہے اور اللہ کے مقربین میں سے ہے”۔ (آلِ عمران) یہاں عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ”کلمہ” سے تعبیر فرمایا کیونکہ ان کی پیدائش عام سنّتِ الٰہی اور اسباب سے ماورا اللہ تعالیٰ کے کلمہ ‘کن’ یعنی امر سے ہوئی۔
سنّتِ الٰہیہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام علیہم السلام کا تذکرہ تعظیم وتکریم، عزت ووقار اور اُن کے اوصافِ حمیدہ کے ساتھ کیا جائے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”بے شک وہ ہمارے نزدیک چنیدہ اور پسندیدہ ہیں، (ص:47)”، نیز فرمایا: ”(منافقین) کہتے ہیں: اگر (اب) ہم مدینہ واپس گئے تو ضرور بڑی عزت والا بڑی ذلت والے کو وہاں سے نکال دے گا، حالانکہ (درحقیقت) عزت صرف اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کے لیے ہے، لیکن منافقین (اس حقیقت کو) نہیں جانتے، (المنافقون: 8)”۔
آج انسان ہل کر رہ جاتا ہے کہ ایک یوٹیوبر اللہ کے نبی کے لیے ”چھوکرا” کا لفظ بولتا ہے اور اس کی تاویل وتوجیہ بھی پیش کرتا ہے۔ چھوکرا ہندی لفظ ہے اور ریختہ میں چھوکرا کے معانی ہیں: ”لڑکا، نو عمر، جس کی داڑھی مونچھ ابھی نہ نکلی ہو، غلام، چیلا، ہوٹل یا کارخانے وغیرہ میں کام کرنے والا لڑکا، زنانہ لباس پہن کر رقص کرنے والا لڑکا یا مرد، بس کا کنڈکنٹر، مسافروں سے کرایہ لینے والا، ڈرائیور کا مدد گار اور گاڑی صاف کرنے والا لڑکا، بیٹا، پسر، کم فہم، نادان، نا تجربہ کار”۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعویٰ فرمایا تو آپ کی عمرِ مبارک چالیس سال تھی اور یہ پختہ عمر ہوتی ہے اورقرآنِ کریم یا احادیثِ مبارکہ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ کفارِ مکہ اور منافقینِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوکرا کے ہم معنی عربی لفظ سے پکارا ہو، البتہ ابراہیم علیہ السلام کو نمرودیوں نے ”فَتی” (نوجوان) کہا، (انبیائ: 60)” اور ”فُتُوَّة” کے معنی ہیں: ”سخاوت، مروت، کرم”۔ موصوف نے یہ بھی کہا: ”لوط علیہ السلام یا نوح علیہ السلام میری کامیابی کو دیکھ کر رشک کریں گے”، گویا یہ اپنی دانست میں بعض انبیائے کرام سے افضل ہیں، کیونکہ رشک فضیلت کے سبب کیا جاتا ہے۔ یہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں: انبیائے کرام علیہم السلام کی امتوں کا ایمان سے محروم رہ جانا، انبیائے کرام کی ناکامی نہیں ہے، اُن امتوں کی بدنصیبی ہے۔ اس طرح کا اندازِ بیان تو وہ اختیار کرسکتا ہے جو اللہ کے نبی کو اپنا حریف سمجھتا ہو۔ العیاذ باللہ تعالیٰ! اگر بفرضِ مُحال پیروکاروں کی کثرتِ تعداد کو ”معیارِ حق” مان لیا جائے، تو عہدِ حاضر میں ابلیس کے بہت پیروکار ملیں گے، اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔
قرآنِ کریم نے آدابِ نبوت تعلیم فرمائے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس بپا ہوتی اور آپ کچھ ارشاد فرما رہے ہوتے اور صحابہ کو بات سمجھ میں نہ آتی تو وہ ادب کے ساتھ عرض کرتے: ”رَاعِنَا یَارَسُولَ اللّٰہ” یارسول اللہ! ہماری رعایت فرمائیے، یعنی مکرر ارشاد فرمائیے۔ اُس دور میں منافق بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے اور اس کلمے کو طول دے کر ”رَاعِیْنَا”کہتے اور اپنی مجلس میں اس پر فخر کرتے کہ ہم نے ان کی اہانت کردی، کیونکہ ”رَاعِیْنَا” کے معنی ہیں: ”ہمارے چرواہے” یا کہتے: ہم نے ”رَعن” کے معنی میں بولا ہے اور اس کے معنی ”احمق” ہیں۔ (جاری ہے)