پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا اسٹریٹجک معاہدہ کئی اعتبار سے غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے جس کے اثرات پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔ مسلم دنیا، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں اسے خاص توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی اس پر کئی ممالک کا ردعمل محتاط ہے، بھارت نے کھل کر تبصرہ نہیں کیا، امریکی بھی صورتحال کا جائزہ ہی لے رہے ہیں۔ ایرانی ردعمل ممکن ہے علانیہ سامنے نہ آئے، مگر بہرحال تہران میں بھی اس پیشرفت کا گہرائی سے تجزیہ ہورہا ہوگا۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے البتہ اس میں خاصا کچھ ہے، بہت دلچسپ، اہم اور غیر متوقع۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے نے ہر ایک کو چونکا دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے سرپرائز ثابت ہوا۔ کسی بھی بڑے اخبار، تھنک ٹینک، تجزیہ کار یا عالمی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس قسم کے معاہدے کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ کہیں پر ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملا۔ یہ بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔پاکستان اور سعودی عرب میں امریکی اثرورسوخ موجود ہے اور یہاں سے اتنی اہم خبر لیک ہونے کے قوی امکانات موجود تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے پر ایک سال سے کام ہورہا تھا۔ ممکن ہے ایک سال نہ ہو، پھر بھی ظاہر ہے 5، 7دن میں تو یہ نہیں ہوا، اس پر اور کچھ نہیں تو کئی ماہ کی ورکنگ ضرور ہوئی۔ ایران اسرائیل جنگ نے بھی اس تصور کو مضبوطی بخشی ہوگی، قوی امکانات یہی ہیں کہ اسرائیل کے قطر پر حملے نے معاملے کو فیصلہ کن پوزیشن دی اور پھر ایک ہفتے کے اندر ہی یہ بڑی ڈیل ہوگئی۔ اسے مگر جس پروفیشنل اور میچور انداز میں خفیہ رکھا گیا، یہ قابل تحسین اور قابل داد ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اور خارجہ امور کے تجزیہ کار مشاہد حسین کا تو خیال ہے کہ پاکستان نے خاموشی سے عرب دنیا کی حفاظت سے مغرب کو نکال کر خود جگہ لے لی ہے۔ ہر جگہ عمومی تاثر یہی ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کی خاطر پاکستان سے یہ معاہدہ کیا ہے۔ کیا اس میں جوہری تنصیبات بھی شامل ہیں۔ اس پر فی الحال ابہام ہے۔ بی بی سی نے ایک بھارتی تجزیہ کار اور محققہ رابعہ اختر کی رائے نقل کی جن کے مطابق اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان باضابطہ طور پر سعودی عرب کو جوہری تحفظ دے گا، مگر اس معاملے میں ابہام ہی سعودی مقاصد کو پورا کرسکتا ہے۔

بھارت کا ابتدائی ردعمل تو محتاط رہا ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پر بہت احتیاط سے بیان دیا ہے۔ رندھیر جیسوال کے مطابق ہم اس پیشرفت کے اپنی قومی سلامتی اور بین الاقوامی استحکام پر مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حکومت قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم بھارتی تشویش چھپائے نہیں چھپ رہی، وہاں کئی دفاعی تجزیہ کاروں، صحافیوں اور فعال سیاسی کارکنوں نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے، کانگریس کے بعض رہنمائوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطی میں بھارتی اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس معاہدے سے بھارت خوش نہیں ہوگا کیونکہ پاک سعودی عرب تعلقات نہ صرف زیادہ مضبوط، گہرے اور مستحکم ہوئے ہیں بلکہ ان میں وسعت اور گہرائی آئی ہے۔

کئی ممتاز مغربی تجزیہ کار اور عسکری ماہر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس معقول تعداد میں نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں اور ایسے لانگ رینج تیز رفتار میزائل بھی جو 3ہزار کلو میٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا میزائل شاہین تھری نیوکلیئر وارہیڈ لے جانے والا میزائل تصور ہوتا ہے، یہ ہائپر سونک میزائل ہے اور اس کی رفتار 8سے 10میل تک بتائی جاتی ہے۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ اس کی رینج 2700کلو میٹر تک ہے، مگر مغربی عسکری حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے دانستہ طور پر اس کی رینج کم بتائی ہے، ورنہ یہ آسانی سے 3300سے 3500کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے، یاد رہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب پاکستان سے 3200کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان نے چند سال قبل یمن کے خلاف جنگ کے لیے سعودی عرب کی درخواست مسترد کردی تھی، تاہم پاکستان ایک نکتے پر طویل عرصے سے یکسو ہے اور جو بھی حکمران آیا، وہ اس پر متفق رہا ہے کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے پاکستانی افواج کو سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر سعودی عرب پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی بات ہو تو پاکستان کھل کر سعودی عرب کے ساتھ جائے گا اور پھر اس تعاون کی کوئی حد نہیں ہوگی کہ حرمین شریفین کا تحفظ اور محافظ الحرمین کہلانا پاکستان اور پاکستانی افواج، لیڈروں، کمانڈروں کے لیے بہت جذباتی معاملہ ہے، البتہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر کرانے کی کوشش کرے گا اور یوں یمن کا بحران شاید ختم ہی ہو جائے۔

کیا اس معاہدے میں مزید ممالک شامل ہو سکتے ہیں؟ عرب تجزیہ کار اس جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے پہل کی ہے اور ایک طرح سے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور شاید عمان بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے معاہدے کا حصہ بن جائیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ایسا عجلت میں ہو، ابھی تو ہر ملک یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ امریکا اس پر کیا ردعمل دیتا ہے؟ کیا خبر ایک اور دفاعی معاہدہ کئی مسلم ممالک مل کر کریں جن میں یہ عرب ممالک پاکستان اور ترکیہ شامل ہوں۔

کیا امریکا اسے یوں برداشت کر لے گا؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ امریکا یہ تو قطعی طور پر برداشت نہیں کرے گا کہ اتنا بڑا ریجنل شفٹ آجائے اور عرب ممالک امریکی ڈیٹرنس سے نکل کر پاکستان کو اپنا محافظ بنا لیں۔ امریکا اس سے بھی خوفزدہ ہوگا کہ کیا یہ سب کچھ ان عرب ممالک کو چینی بلاک میں لے جانے کے لیے تو نہیں ہو رہا؟ وائٹ ہاؤس علانیہ طور پر جو بھی کہے، امریکی اس پیشرفت کو پسند نہیں کریں گے، پاکستان پر امریکی دباؤ بھی آئے گا، بہت سی سازشیں بھی ہوں گی اور کئی ایسے مدعے اور معاملات اچھالے جائیں گے جن کی طرف پہلے امریکا توجہ نہیں دے رہا تھا۔

پاک سعودی عرب تعاون کی کیا صورتیں نکل سکتی ہیں؟ سب سے زیادہ امکانات تو یہ ہیں کہ پاکستان اسلحے کے حوالے سے بڑی پیشرفت کر سکتا ہے۔ جدید ترین میزائلوں کی تیاری پر کام تیز ہو جائے گا۔ پاکستان اب بڑی تعداد میں ہائپر سونک بیلسٹک میزائلوں اور تیز رفتار خطرناک ڈرون بنانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی مالی مدد اور سپورٹ سے پاکستان کی عسکری قوت اور ساز وسامان کے ساتھ جدید اسلحے کے حصول اور خود کفالت میں خاصا اضافہ ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مزید پاکستانی دستے سعودی عرب جائیں، سعودی فوج کی تربیت وغیرہ میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے یہ اب پاکستانی فضائی اور نیوی دستے بھی زیادہ تعداد میں سعودی عرب جائیں اور ان کی کیپیسٹی بلڈنگ کی کوشش کریں۔

غیرمشروط سعودی حمایت مل جانے سے معیشت کو بھی سہارا ملے گا، کرنسی بھی مضبوط ہوگی، براہ راست سرمایہ کاری ہوگی اور سیاسی طور پر بھی بڑی حمایت میسر ہوگی۔ اپوزیشن خاص کر تحریک انصاف کے پاس اسپیس بہت کم ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر انصافین حامی اس پر سخت ناخوش اور کسی قدر برہم نظر آرہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ سب کچھ اینٹی تحریک انصاف موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور بنا رہا ہے۔ بظاہر تو تحریک انصاف کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ عمران خان کے پاس کسی بہتر ڈیل کے امکانات اب نہیں رہے۔ اب صرف ایک ہی صورت میں ڈیل ہوسکتی ہے کہ اگلے 2، 3 برسوں کے لیے اسی سسٹم کو ہر حال میں چلتے دینا ہوگا۔ سڑکوں پر نکلنے اور حکومت گرانے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر اس شرط کو قبول کرلیا گیا تو ممکن ہے عمران خان کے لیے اگلے ایک، 2ماہ میں امکانات کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھل جائے۔ تاہم یہ موقع بھی ضائع ہوگیا تو پھر 2، 3 برس تک خان صاحب کے باہر آنے کے امکانات نہیں رہیں گے۔

زیادہ تر لوگ اس معاہدے کو سعودی عرب کی جانب سے متوقع مالی امداد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر درست نہیں اور اس میں بھکاری سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ پاکستان کو باوقار انداز میں معاملات آگے بڑھانے چاہئیں۔ یہ معاہدہ ہمارے اوپر کسی کا احسان نہیں بلکہ ہم نے اپنے اوپر کئی نئی ذمہ داریاں، چیلنجز لیے ہیں اور اپنے لیے ممکنہ مخالفوں اور دشمنوں کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کے لیے اب بہت سے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکا کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی یاد آئیں گی اور ممکن ہے صدر ٹرمپ مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان پر تجارتی ٹیرف وغیرہ بھی لگانا چاہے۔ موساد، را اور سی آئی اے وغیرہ کی سازشوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سب کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ناکام بنانا پڑے گا۔ پاکستان کے لیے نئے بڑے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو چیلنجز اور ذمہ داریاں بھی بہت بڑی ہیں۔ اللہ پاکستان کی مدد کرے اور ہمیں ہر میدان میں سرخرو فرمائے، آمین۔