بلوچستان فتنہ الہندوستان یعنی بھارت کی آشیرباد سے چلنے والی کالعدم تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف ) کی گھناؤنی سازشوں کا مسلسل شکار ہے۔ تیانجن ایس سی او سمٹ 2025ء میں پہلی بار بی ایل اے اور بی وائے سی کی جانب سے بھارت کی سرپرستی میں پھیلایا جانے والا پروپیگنڈا باضابطہ طور پر عالمی سطح پر رد کردیا گیا جو یقینا پاکستان کیلئے ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔ بی وائی سی کالعدم دہشت گرد تنظیم بی ایل اے، جسے امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، کا سیاسی ونگ ہے۔ اس کا اصل مقصد ریاست مخالف بیانیہ پھیلانا، دہشت گردوں کو لاپتہ افراد بنا کر پیش کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ بی وائی سی کی قیادت ماہ رنگ لانگو کے ہاتھ میں ہے جو خود بی ایل اے کے دہشت گرد عبدالغفار لانگو کی بیٹی ہے۔ بی ایل اے مسلسل معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا رہی ہے، اغوا برائے تاوان، قتل کر کے ان کی لاشوں کو ادھر ادھر پھینک دیا جاتاہے اور پھر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بی ایل اے کی پراکسی بی وائی سی ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات لگا کر منفی پراپیگنڈا شروع کر دیتی ہے۔ جب بھی بلوچستان میں بی ایل اے کوئی دہشت گردانہ کارروائی کرتی ہے، بی وائی سی کے پلیٹ فارم سے انسانی حقوق کے مارچ تیزی سے منظم ہوتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ، مارچ 2025ء کے بعد کوئٹہ میں لاشیں چھیننے اور سڑک بلاک کرنے والے احتجاج میں اسی طریقہ کارکو دہرایا گیا۔ یہ انسانی حقوق کا ادارہ کم بیرونی طاقتوں کا آلہ کار زیادہ ہے۔ صہیب لانگو عرف عامر بخش جسے بی وائی سی نے 2024ء میں مسنگ پرسنز قرار دیا، سکیورٹی حکام کی تصدیق کے مطابق 21جولائی 2025ء قلات میں بی ایل اے کے ٹھکانے پر فوجی کارروائی کے دوران جھڑپ میں مارا گیا۔ اس کی موت کے چند دن بعد بھی بلوچ کارکن نیٹ ورکس (آن لائن پیجز ”پانک” اور ”بام”) اس کو لاپتہ کہتے رہے۔ صہیب کو ماہ رنگ لانگو کے ساتھ بی وائی سی کے احتجاج میں مارچ کرتے اور اس کے باڈی گارڈ کے طور پر کام کرتے دکھایا گیا۔ دہشت گرد اسلم اچھو 25دسمبر 2018ء کو قندھار میں خودکش دھماکے میں مارا گیا، یعنی وہ بھی افغان پناہ گاہ ہی میں چھپا بیٹھا تھا۔ عبدالودود ستاکزئی کو 2023ء میں لاپتہ بتایا گیا، وہ مچھ دھماکا میں ملوث پایا گیا۔ کریم جان مارچ 2024ء میں گوادر پورٹ پر خودکش دھماکے میں مارا گیا۔ تنیاہ بلوچ، رفیق بزنجو اور بہار بلوچ دہشت گردوں کو ریاستی جبر کا شکار بنا کر پیش کیا گیا، حقیقت میں وہ بے ایل اے کے سرگرم دہشت گرد نکلے۔ بی وائی سی انسانی حقوق اور شہری آزادی کے نام پر مغرب میں احتجاج منظم کرنے میں سرگرم ہے اور بیرونِ ملک ریلیوں میں پاکستان کے خلاف بلوچستان میں مبینہ مظالم کے حوالے سے غلط تصویر پیش کرتی ہے جبکہ بی ایل اے، بی ایل ایف کی دہشت گردی پر ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا۔ بی وائے سی کے احتجاجی کیمپوں میں دہشت گردوں کی تصاویر اٹھائی جاتی ہیں، ان کی موت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ماہ رنگ لانگو خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکی ہیں کہ جن دہشت گردوں کو ایران میں بی ایل اے کے ٹھکانوں پر پاکستانی کارروائیوں میں ہلاک کیا گیا، وہ اس کے احتجاجی کیمپوں میں شریک تھے۔
قانونی پہلو سے دیکھا جائے تو بی وائے سی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ نہ بطور این جی او رجسٹرڈ ہے نہ سیاسی جماعت کے طور پر، یوں یہ تنظیم بغیر کسی باضابطہ نگرانی یا احتساب کے کام کر رہی ہے۔ بی وائے سی کے جلسوں میں ”آزاد بلوچستان” کے ترانے گائے جاتے ہیں اور علیحدگی پسند پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق 2024ـ25ء کے دوران بی وائی سی کے تین آن لائن کراؤڈ فنڈنگ اکاؤنٹس میں 1.8ملین ڈالر سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، جن میں سے 46فیصد براہِ راست بیرونِ ملک سے آئے۔ یہ رقوم بظاہر ہیومن رائٹس کیمپین کے نام پر وصول کی گئیں لیکن ان کی خرچ تفصیل میں یورپی لابنگ فرموں کی فیسیں بھی شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف بھی ہوا کہ بلوچستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے کالعدم تنظیمیں بھی حصہ وصول کرتی ہیں۔
اگر کلبھوشن یادیو کو بروقت سزا مل گئی ہوتی تو را کے سلیپنگ سیل پاکستان میں کام نہ کر رہے ہوتے۔ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں بی ایل اے نے مجموعی طور پر 284حملے کیے۔ شناختی کارڈ دیکھ کر، بسوں سے مزدوروں کو اتار کر سفاکیت کا نشانہ بناکر، نسلی و لسانی منافرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 2012ء میں تربت میں 18غیر مقامی مزدوروں، 2013ء میں مچھ میں 13پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا۔ 2015ء میں مستونگ میں 22پشتون مزدور قتل ہوئے۔ 2019ء میں اورماڑہ میں 14مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولی ماری گئی۔ 2023ء میں تربت میں چھ مزدور شہید کیے گئے۔ 12اپریل 2024ء کو پنجابی شہریوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔ 26اگست 2024ء کو موسیٰ خیل میں 23مزدوروں کو شہید کیا گیا۔ ستمبر 2024ء میں پنجگور میں سات مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ 11اکتوبر 2024ء کو دُکی میں خیبرپختونخوا کے 20کان کنوں کو شہید کر دیا گیا۔ فروری 2025ء میں ہرنائی میں 10کان کنوں کو قتل کیا گیا۔ جولائی 2025ء میں لورالائی میں نو افراد اور قلات میں قوال برادری کے تین افراد کو مار دیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے دہشت گردوں کے بھرتی مراکز ہیں، جہاں تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان اور خواتین کو ریاستی ناانصافیوں اور محرومیوں کی من گھڑت کہانیاں سناکر ورغلایا جاتا ہے۔ عدیلہ بلوچ، شاری بلوچ اور ماہل بلوچ کو بی ایل اے نے سماجی اور نفسیاتی دباؤ پر خود کش بمبار بننے پر مجبور کیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ کالعدم تنظیم بی آر پی کا اہم کمانڈر نجیب اللہ جب قومی دھارے میں شامل ہوا تو اس نے تہلکہ خیز انکشافات کیے تھے۔ فتنہ الہندوستان کے خود کش اسکواڈ مجید بریگیڈ کے ایک اہم سہولت کار ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کی گرفتاری اور سفیان کرد کی ہلاکت نے ثابت کیا کہ یہ نیٹ ورک اب ہائبرڈ وار کے سافٹ فیز سے نکل کر براہِ راست عسکری فیز میں داخل ہو چکا ہے۔ بی ایل اے کا اکیڈمک نیٹ ورک صرف نصابی مباحث کو مسخ نہیں کر رہا، بلوچ نوجوانوں کی برین واشنگ بھی کی جا رہی ہے، لہٰذا ایک جامع آپریشن جس میں سائبر فرانزک، فنانشل مانیٹرنگ اور کیمپس سکیورٹی ریفارمز یکجا ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔ مجید بریگیڈ نہ صرف ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے ساتھ تعاون کرتا ہے بلکہ افغان بیسز سے مشترکہ کارروائیاں بھی پلان ہو رہی ہیں۔ صرف ٹی ٹی پی ہی نہیں بی ایل اے بھی افغانستان کو محفوظ جنت سمجھتی ہے۔ را اور طالبان، دونوں کی سرپرستی میں افغانستان میں القاعدہ اور بی ایل اے کے مشترکہ کیمپ فعال ہیں۔ دشمن جان لے! دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قوم اور فورسز ایک پیج پر ہیں۔ شیر دل میجر عدنان اسلم اور کیپٹن وقار احمد سمیت افواج پاکستان کے جانباز اپنے قیمتی لہو سے وطنِ عزیز میں امن کی آبیاری کرنے کی روشن مثالیں ہیں۔ ہم پاک دھرتی کے ان سپوتوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دشمن کو بتا دیا ہے کہ وطن کے یہ بہادر بیٹے فتنہ الہندوستان کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں نچھاور کرنے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے۔ ان شاء اللہ!
پاکستانی عوام اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ڈیجیٹل جنگ میں دشمن کے عزائم کو پہچانیں، یکجہتی کے ساتھ ہر سازش کو ناکام بنائیں اور بلوچستان کے نام پر کھیلنے والے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیں۔