سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت

پاکستان کے مختلف اخبارات ٹی وی چینلز پر آج سیلاب کی صورت حال پر بکھرے ہوئے الفاظ اور ہندسے ہیں، کہیں کشتیاں ڈوب رہی ہیں، کہیں سینکڑوں افراد پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں سیلاب جس نے 45لاکھ سے زائد افراد متاثر کیے اور ساڑھے چار ہزار گاؤں زیر آب آ چکے ہیں۔ کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ 4ہزار سے بھی زائد دیہات میں رہنے والے لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی کو اپنی آنکھوں کے سائے ڈوبتے دیکھا۔ ایک ایسی ماں جس کے بچے کو لے کر آ رہے تھے اور اس کے سامنے کشتی ڈوب گئی۔ ایسا باپ جس کی بیٹی کا جہیز سیلاب کی نذر ہوگیا۔ یہ دریا راوی، ستلج، چناب کبھی زندگی کا پیغام تھے۔ بھارت نے آبی جارحیت کرکے ان میں موت بھر دی ہے۔

سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ امدادی کشتیوں کے مالک 40سے 50ہزار کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانیت کس قدر خودغرض اور مفاد پرست ہو چکی ہے۔ ایک ایسی قوم جو ہر سال کم یا زیادہ سیلاب سے گزر رہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتی۔ بے گھر ہونے والے افراد ریلیف کیمپوں میں ہیں، آج ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ پاکستان کے غریبوں، بے بسوں، بے کسوں کی دکھوں کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ایک آفت جاتی ہے تو دوسری آ جاتی ہے۔ 12ستمبر روزنامہ اسلام ایک ایسی حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ایک آفت ابھی گئی نہیں دوسری سر پر سوار ہوگئی ہے۔ اخبار کی سرخی ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے نئے خطرات نئے سر اٹھالیے اور غذائی بحران پیدا ہو چکی ہے۔ آٹا، چاول، سبزیاں اور پھل کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں۔ منافع خوروں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔چند ماہ قبل کا بجٹ درد کا ہندسہ بیان کر رہا تھا کہ 25لاکھ سے زائد نئے بے روزگار نوجوان ہیں۔ اب اس سیلاب کی وجہ سے مزید لاکھوں افراد کا روزگار ختم ہوچکا ہے۔ یہاں پر سارے خوفناک پریشان کن ہندسے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہ تو ان غریب لوگوں کی دکھ بھری کہانی ہے، جن کے پاس نہ کھانے کے لیے پیسے ہیں نہ چھت۔ جلالپور کا پانی میں گھر جانا لیاقت پور کے بہت سے موضعات کا ڈوب جانا، جگہ جگہ بندوں میں شگاف ڈالنا یہ اخبار کی خبریں ہیں۔ممکن ہے یہ کالم چھپنے تک یہ خبریں پرانی ہوچکی ہوں اور نئے خوفناک مناظر سامنے آچکے ہوں۔

حکومت اورریاستی ادارے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کام کر رہے ہیں لیکن حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ سیلاب کے امداد والے حکومتی کارکنوں کے پاس چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہیں، وہ زیادہ افراد بھی لے کر نہیں جا سکتے۔ متاثرین پانی میں گھر کر بھی اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو قریبی جگہ تک چلے آئے، لیکن ان کی نظریں اپنے گھر اس کے سامان، مال مویشی پر ٹکے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ رات کے وقت چور بڑی بڑی کشتیاں لے کر آتے ہیں اور سارا سامان چراکر لے جاتے ہیں۔ روزنامہ اسلام کی 13ستمبر کی خبر کے مطابق جتوئی، پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں لوگ چاروں طرف سے محصور ہیں، سیلاب متاثرین کی زندگی خطرے میں ہے، علی پور، احمد پور شرقیہ سمیت کئی علاقوں میں متعدد بستیاں زیر آب آ چکی ہیں، دوسری طرف گدو سے لے کر شکارپور تک 90فیصد رہائشی پھنس کر رہ گئے ہیں، حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سیلاب زدگان امداد سے محروم ہیں، شاید کسی وزیر یا وزیراعلیٰ کا جیسے ہی کسی سیلاب زدہ علاقے کا دورہ رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ فوراً متحرک ہو جاتی ہے۔ بعد میں صورت حال بدستور پہلے کی طرح بن جاتی ہے۔ لہٰذا حکومت مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی کرکے فوراً امداد کا بندوبست کرے۔ صورت حال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔ لوگ سیلاب سے مر رہے ہیں۔ بہت سے سانپ کے ڈسنے سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے مر رہے ہیں، صاف پانی میسر نہیں پاس سے بلبلا رہے ہیں۔ نہ بچوں کو خوراک مل رہی ہے نہ بیمار کے پاس ادویات ہیں، پورے علاقے میں طرح طرح کی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔ جانور خوراک کو ترس گئے اور امداد والے آتے ہیں۔ معائنہ کرنے والے آتے ہیں، فوٹو سیشن کیے جاتے ہیں۔ تصاویر کھچوائی جاتی ہیں،اس کے بعد سب رفو چکر ہوجاتے ہیں۔

اس صورت حال میں عوامی امداد سے چلنے والے رفاہی ادارے ہی وہ مخلص سہارا ہیں جن کو فوراً ان علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مخیر حضرات کے لیے موقع ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ ہر طرح کی امداد لے کر ضرورت مندوں تک پہنچیں۔ بہت سے افراد اور ادارے اس کارخیر میں پہلے سے شریک ہیں جن میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔