عر ب حکمران!

شہزادی شیخہ مہرہ دبئی کے حکمران شیخ راشد المکتوم کی بیٹی ہیں۔ شیخہ مہرہ کی شادی 5اپریل 2023کو شیخ مانع المکتوم سے ہوئی تھی لیکن محض ایک سال بعد 2024میں پہلے بچے کی پیدائش کے دو ماہ بعد ان کی طلاق ہوگئی۔ کچھ دن قبل یہ شہزادی شیخہ مہرہ فرانس کے شہر پیرس میں مشہور امریکی ریپر فرنچ مونٹانا کے ساتھ دیکھی گئی اور آج کل ان کے معاشقے کے چرچے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ ایک غیر مسلم اور شراب وکباب کے رسیا گلوکار کے ساتھ شیخہ مہرہ کے معاشقے کے عمل نے عرب شاہی خاندانوں کی ترجیحات اور ان کی مذہب سے وابستگی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ دین اسلام سے قبل عرب قبائل عیش پرستی، اخلاقی پستی اور روحانی گمراہی کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے اور عرب معاشرہ قبائلی تعصبات، شراب و جوا، عورتوں کی تذلیل، جنسی بے راہ روی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار تھا۔ عورت محض جنسیت کا استعارہ تھی اور زندگی کا مقصد لذت پرستی اور دنیاوی جاہ و حشمت کا حصول تھا۔ دین اسلام نے اس تاریک عرب معاشرے کو ایمان، حیا اور عدل کے نور سے بدلامگر افسوس دور جدید کے عرب شہزادے اور شہزادیاں دوبارہ اسی جاہلی کلچرکو اپنانے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔

شیخہ مہرہ کا ایفل ٹاور کے سامنے ”لو لاک” تھامے اپنی تصویر شیئر کرنا محض ایک تصویر نہیں بلکہ اس کے پیچھے عرب شاہی خاندانوں کا فکری زوال اور تہذیبی انحطاط جھلک رہا ہے۔ اسلام نے شرم و حیا کو عورت کا زیور قرار دیا ہے اور اسلامی تہذیب میں عرب خواتین ایمان اور حیا کا پیکر سمجھی جاتی تھیں۔ آج وہی عرب شہزادیاں فرنچ مونٹانا جیسے گلوکار کہ جس کی زندگی کا مقصد محض موسیقی اور شراب وکباب ہے، اس کے ساتھ تعلقات نبھانے پر نہ صرف فخر محسوس کر رہی ہیں بلکہ علی الاعلان اس کی تشہیر بھی کر رہی ہیں۔

شیخہ مہرہ کا یہ عمل صرف ایک شہزادی کا انفرادی عمل نہیں بلکہ یہ پورے عرب اشرافیہ کی اجتماعی ذہنیت کو عیاں کرتا ہے۔ یہ ثابت کر تا ہے کہ ان کے لیے مغربی طرز زندگی اسلامی و اخلاقی اصولوں سے زیادہ اہم ہے۔ ان کی محفلیں، ان کی ترجیحات اور ان کی مصروفیات اس بات کی غماز ہیں کہ ان کے نزدیک دین محض ایک تہوار ہے جو شاہی محلات کی دیواروں سے باہر قابل قبول ہے مگر اسے ان دیواروں کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یہ عرب شہزادے اور شہزادیاں دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہیں کہ انہیں اپنے گرد و پیش میں پھیلی بھوک، غربت اور مظلومیت کی صدائیں بھی نہیں سنائی نہیں دے رہیں۔

یہ وہی عیش پرست عرب دنیا ہے جس کے پڑوس میں چند مہینوں میں ہزاروں معصوم فلسطینی بچے بھوک اور پیاس سے شہید ہو چکے ہیں مگر یہ عرب شہزادے اور شہزادیاں پیرس، لندن، نیویارک اور دبئی کی ایلیٹ پارٹیوں میں مہنگے ترین ملبوسات، عطر، جیولری اور کاروں پر کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ بھوک سے مرنے والے فلسطینی بچوں کی ماؤں کی چیخیں ان کے محلات اور ان کی خواب گاہوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ یہ چیخیں پہنچ بھی جاتی تو یہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی کیونکہ ان کے دلوں پر نفس پرستی اور عیش پرستی کی دبیز تہہ چڑھ چکی ہے۔

آج افریقہ کے کئی مسلم علاقوں میں عیسائی مشنریز کی جانب سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کی جا رہی ہے۔ یہ تبلیغ وہاں کے بھوکے، مفلس اور تعلیم سے محروم مسلمانوں کے درمیان کھانا، دوائیں اور تعلیم کی آڑ میں پھیلائی جا رہی ہے مگر عرب شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس اس تبلیغ کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کا ایمان بچانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ ان کے بجٹ میں صرف فیشن ویک کے شوز، ساحلی جزیروں پر بنے پرتعیش محل اور یورپ کی خفیہ محفلوں کے لیے فنڈز موجود ہیں۔ اگر ان کی دولت کا عشر عشیر بھی افریقی مسلمانوں کا ایمان بچانے پر خرچ ہوتا تو لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے ایمان بچائے جا سکتے تھے۔

یہ عرب شہزادے اور شہزادیاں دنیا کو اپنے ترقی ہونے کا یقین دلانا چاہتے ہیں مگر حقیقت میں یہ اسی جاہلی قبائلی معاشرے کے نمائندے ہیں جو بتوں کی پوجا کرتے اور عورتوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ ان کے دل ایمان کی حرارت سے خالی اور ان کی آنکھوں سے بصیرت کا نور چھن چکا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی تقلید عزت اور ترقی کا راستہ ہے مگر یہ راستہ انہیں دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ یہ اسرائیل سے تجارتی معاہدے کر کے امریکی اسلحے پر اربوں ڈالر خرچ کر کے اور مغربی بینکوں میں کھربوں ڈالر محفوظ کر کے سمجھتے ہیں، ان کی یہ عیش پرستی ہمیشہ رہے گی۔ شہزادی شیخہ مہرہ کاواقعہ محض واقعہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی سانحہ ہے۔ اسلام نے انہیں امت کی قیادت کا منصب سونپا تھا مگر انہوں نے اس منصب کو فیشن اور شہرت کی ہوس پر قربان کر دیا۔