قطر پر صہیونی شب خون اور امن مذاکرات کا فریب

برادر اسلامی ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس رہنماؤں کے اجلاس کے موقع پر اسرائیلی حملہ امتِ مسلمہ کیلئے ایک سبق ہے یا عالمی سامراج کی تنبیہ۔ حیرت تو یہ ہے کہ جدید دفاعی نظام سے لیس قطر پر حملے کی اجازت خود اس امریکی صدر نے دی جس نے چند ماہ پہلے قطری حکمرانوں سے اربوں ڈالر کے تحائف وصول کیے اور بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکا اور قطر دوست اور شراکت دار ہیں مگر یہ شراکت محض کھوکھلا نعرہ ثابت ہوئی۔ حالانکہ قطر کی حفاظت کیلئے نصب امریکی ڈیفنس سسٹم پٹریاٹ PACـ3 اور NASAMSـ2، برطانیہ کاRapier، فرانس، جرمنی کا Roland، تھاڈ ائیر سسٹم جن کو ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ اسرائیل کے خلاف قطر کے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم کی ناکامی سوالیہ نشان ہے۔ یہ محض تکنیکی خرابی ہے یا کچھ اور؟ ایرانی حملے میں متحرک ہونے والا ایئر ڈیفنس سسٹم اسرائیلی حملے میں خاموش کیوں رہا؟

غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے تقریباً 15طیاروں نے دوحہ پر پرواز کی اور دس حملے کیے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، مسلم دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں حکمرانوں نے اپنے وسائل مغرب کے قدموں میں نچھاور کیے اور ان سے سلامتی خریدی، لیکن ہر بار انجام یہی نکلا۔ دھوکا اور بے اعتباری۔ قطر گزشتہ 23ماہ سے جاری جنگ سمیت اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک کلیدی ثالث رہا ہے، مگر دوحہ پر اسرائیلی حملے نے نہ صرف قطر بلکہ دیگر خلیجی ممالک میں امریکا پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اس حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یرغمالیوں کی رہائی اور امن کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے نیتن یاہو کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ صہیونی سفاکیت کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، اب یہ قطر تک محدود نہیں رہے گا، خلیج کے دیگر ممالک کیلئے بھی انتہائی اہم ہے جنہوں نے امریکی فوجی ساز و سامان پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ فلسطین اور غزہ پر تو صہیونی درندگی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے تو سیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے لیبیا، تیونس، شام اور اب قطر پر حملہ کیا۔ قطر کے بعد یمن کو نشانہ بنانا اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حملہ دوحہ میں موجود حماس کے وفد کو ختم کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی، جس نے عالمی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ اس حملے کے بارے میں قطر کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی، تاہم قطری وزیر کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع بہت دیر سے ملی۔ ان تضادات نے امریکا اور قطر کے مابین تعلقات کی نوعیت پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ آزاد و خود مختار ملک، بڑے امریکی فوجی اڈے کا میزبان اپنی فضائی حدود میں صہیونی فوجی کارروائی کو کیوں نہ روک سکا؟ یاد رہے کہ العُدید ایئر بیس مشرق وسطی میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، جہاں تقریباً 10ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکا یاد کرے کہ یہ وہی دوحہ ہے جہاں واشنگٹن اور طالبان کے مابین امن عمل پایہ تکمیل تک پہنچا۔ امریکا کو مجموعی طور پر دو ہزار ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اٹھارہ سال کی طویل جنگ مذاکرات کی میز پر حل ہوئی۔ امریکی فوج کا کابل سے بحفاظت انخلا کامیاب ہوا۔ قطر نے 2023ء میں چند اہم معاہدوں میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ جن کے نتیجے میں وینزویلا اور ایران کی طرف سے کچھ امریکی قیدیوں کی رہائی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ممکن ہوا۔ تاہم دہشت گرد اور مسلمانوں کے مجرم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایسے اقدامات کو اپنی دفاعی ضرورت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات پیش آ سکتے ہیں، بلکہ نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں قطر پر مزید حملے کرنے کا اشارہ کیا ہے اور 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی حملے سے تشبیہ دیتے ہوئے پاکستان کو وارننگ دی جس کا مطلب پاک افواج کی صلاحیتوں کو چیلنج کرنا ہے جبکہ سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب کا اسرائیلی مندوب کو دوٹوک جواب، جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی، نے اس کو معافی ما نگنے پر مجبور کر دیا۔

اسرائیل یہ بھول بیٹھا ہے کہ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ دوحہ اہمیت کا حامل ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی ڈھٹائی سے جاری جارحیت کو روکنے پر زور دیا گیا۔ بلاشبہ پاکستان اس مشکل وقت میں امیر قطر، شاہی خاندان اور قطر کے برادر عوام کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ عالم اسلام کو صہیونی اشتعال انگیزیوں کے مقابلے میں اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ 15ستمبر کو غیرمعمولی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی میزبانی کے قطر کے فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا گیا ہے۔ ابراہم اکارڈ کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جن منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی ان کے نتیجے میں کئی عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل سے تعلقات کو باقاعدہ تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا بلکہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس سمیت متعدد شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ باہمی تعاون کے منصوبوں کو بھی عملی شکل دینا شروع کر دی، ماضی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ قطر پر حملے کے بعد کیا ابراہم اکارڈ معطل ہو چکا ہے؟

قطر کا واقعہ لمحۂ فکریہ ہے کہ عالم اسلام اپنی آنکھیں کھولے اور اس حقیقت کو پہنچانے کہ یہ کروڑوں اربوں ڈالر کے معاہدے اصل میں غلامی کی زنجیر ہیں۔ جو معاہدے حمایت کے نام پر کیے جاتے ہیں درحقیقت محتاجی کے معاہدے ہیں۔ ہماری اصل طاقت ہمارے وسائل ہیں اور امت مسلمہ کی وحدت ہے۔ فلسطینی مزاحمت کار تنظیم حماس کی قیادت پر اسرائیل کے فضائی عملے کے بعد عرب ریاستوں نے قطر کی مکمل حمایت کرتے ہوئے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے بسی کا اظہار بنیادی طور پر عالمی برادری کو یہ باور کروانے کیلئے ہے کہ اس کٹھ پتلی کی ڈور امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا اس سے کسی ٹھوس عملی اقدام کی توقع نہ رکھی جائے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا نے اکتوبر 2023ء سے اب تک صہیونی ریاست کو 17ارب ڈالرز سے زائد کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ مغرب کی اکثریت واضح طور پر نہ صرف اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے بلکہ اسے مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کیلئے گولہ بارود بھی مہیا کر رہی ہے۔ افسوس! مسلمان ریاستوں کی تعداد دنیا میں 57کے لگ بھگ ہے، تیل اور دیگر قیمتی معدنی ذخائر کی دولت سے مالا مال، جن کو غیرمسلم بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نہتے مسلمانوں پر بمباری کرنے والے جہازوں میں استعمال ہونے والا ایندھن بھی مسلمانوں کے ملکوں سے ہی نکلتا ہے۔ چند لاکھ افراد پر مشتمل غاصب، مسلم دشمن اسرائیل تمام مسلم امہ پر حاوی ہے۔ قبلہ اوّل پر وہ قابض ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی چیخ و پکار، آہ و بکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

دراصل جنگ عظیم کے بعد ورلڈ آرڈر یا دوسرے لفظوں میں مسلم دنیا کے ڈس آرڈر نے ہی اسرائیل کو جنم دیا؛ چنانچہ نیو ورلڈ آرڈر کی رو سے اسرائیل ہی حتمی سپرپاور ہوگا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے خدوخال امریکیوں کی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں دکھائی دیتے ہیں۔ نئے ورلڈ آرڈر کیلئے ”سٹیج” تیار کیا جا رہا ہے۔ اس نئے ورلڈ آرڈر کی ترتیب اور اس کے خدوخال مسلم دنیا کیلئے انتہائی بھیانک اور تباہ کن ہوں گے۔ قطر پر صہیونی دہشت گردی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غیر منصفانہ عالمی نظام میں کوئی ملک محفوظ نہیں ہے۔ اقوام مسلم کیلئے اب زبانی کلامی مذمتوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔