امریکا نے عرصہ دراز سے اپنی حکومتوں کے لیے ایک سرکاری مہر طے کی ہے جسے وہ گرانڈ سیل کہتے ہیں۔ تمام اہم قومی و بین الا قوامی دستاویزات پر حکومت یہی مہر ثبت کر تی ہے۔ اسGrand Seal کے بارے میں دو نکتہ ہائے نظر ہیں۔ ایک سرکاری اور دوسرا غیر سرکاری۔ نیچے ہم دونوں کا ایک جائزہ لیں گے۔ سرکاری تشریحات کے مطابق اس مہر کو ایک ایکٹ کے ذریعے امریکا کی سرکاری مہر قرار دیا گیا تھا جس کا نگراں ہر دور میں امریکی وزیر خارجہ (Secretary of State) ہو تا ہے۔ ابتدا سے آج تک اس مہر کے مشمولات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ مہر کے دو رخ ہیں اگلا اور پچھلا لیکن دستاویزات پر صرف سامنے والا (Obverse) حصہ ہی لگایا جا تا ہے۔
مہر کے سامنے والے حصہ پر ایک عقاب کی تصویر ہے جس کے سر پر امریکا کی ان ابتدائی ریاستوں کو ستاروں کی شکل میں دکھایا گیا ہے جو ریاست بائے متحدہ امریکا میں شامل ہوئی تھیں۔ عقاب کے سینے پر ایک چوکور دھاری دار ڈھال کی شکل ہے جو مذکورہ ریاستوں کے اتحاد کی علامت ہے۔ عقاب کے دائیں پنجے میں زیتون کی ایک شاخ اور بائیں پنجے میں تیروں کا ایک گچھا دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب مہر ڈیزائن کرنے والوں کے مطابق جنگ اور امن دونوں کی طاقت کا اظہار ہے۔ یعنی امریکا کے ہاتھوں میں امن اور جنگ دونوں کی طاقتیں موجود ہیں۔ عقاب کی چونچ میں دائیں بائیں ایک پتلی سی پٹی لہرا رہی ہے جس میں کسی غیر معروف زبان میں UNUM اور EPLURIBUS لکھا ہوا ہے جس کا مطلب بہت سوں میں سے محض ایک ہے۔ سیل کے عقبی رخ پر درمیان میں ایک نامکمل اہرام کی تصویر دی ہوئی ہے۔ جس کے اوپری حصے میں ایک تکون آنکھ روشنی کے ہالے میں دکھائی گئی ہے او راس کے دونوں جانب دائرے کے اندر غیر معروف زبان میں ایک طرفANNUIT اور دوسری طرفCOEPTIS لکھا ہوا ہے۔ اہرام کا مطلب طاقت اور مضبوطی ہے جبکہ غیر مبہم الفاظ سے مراد ہے کہ خدا نے ہمارے افراد کی تائید کی ہے۔ اہرام کی بنیاد میں ایک اور پٹی مندرجہ ذیل حروف لئے ہوئے نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
NOVUS ORDO SECLORUMجس کا مطلب زمانوں کا نیا نظام ہے، جبکہ اہرام کی بنیاد پررومی اعداد لکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اگر موجودہ گنتی میں دوبارہ تحریر کیا جائے تو ان سے سال بر آمد ہو تا ہے جو امریکا کا سالِ آزادی ہے۔ سرکاری موقف کے بر خلاف محققین کہتے ہیں کہ یہ ایک فری میسنری نشان ہے جسے یہودیوں نے امریکا کے ہر ایک ڈالر والے نوٹ پر چھاپ دیا ہے۔ اس کا پورا ڈیزائن فری میسنری کی علامات اور اس کے فلسفے پر مبنی ہے۔ اس کے ایک طرف عقاب کی تصویر ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں ایک قبیلے کا قومی نشان تھا۔ عقاب کے دائیںپر کھلے ہوئے ہیں جو قدیم اسکا ٹش فری میسنری کے درجوں کو ظاہر کر تے ہیں۔ بائیں بازو میں پر کھلے ہوئے ہیں جو انہی اسکاٹش سلسلے کے درجوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ پہلا سلسلہ امریکا کے شمالی حصوں میں جبکہ دوسرا سلسلہ امریکا کے جنوبی حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔ فری میسنری نے گویا اس طرح واضح کیا ہے کہ اس نے امریکا کو شمالا و جنوبا اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ عقاب کی دم کے 9 پر ہیں جو ایک دوسرے فری میسنری سلسلے کے درجوں کو ظاہر کر تے ہیں۔ عقاب کے سر پر موجود ستارے اس طرح سے یکجا کئے گئے ہیں کہ اگر انہیں طریقے سے باہم ملایا جائے تو یہ چھ کونوں والا معروف ستارہ دائودی بن جاتے ہیں۔
یہ تیرہ ستارے وہ تیرہ امریکی نو آبادیات ہیں جنہوں نے انگلستان کے خلاف آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ مہر پر درج لا طینی حروفEpribus unum کا مطلب فری میسنری برادری ہے۔ مہر کے دوسری جانب عقبی حصے میں جو آنکھ نظر آتی ہے وہ ہر فری میسن ہال کی علامتی آنکھ ہے۔ اسے وہ خدا کی آنکھ یا All Seeing Eye کہتے ہیں۔ تاہم اسے دجالی آنکھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آنکھ کے نیچے ایک غیر تعمیر شدہ اہرام Pyramid دکھا یا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ تکون کے اوپری حصے میں غیر معروف الفاظ annuit coeptis لکھے ہوئے ہیں جس کا مطلب کامیابی سے ہمکنار ی ہے۔ چنانچہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ صہیونی منصوبہ ساز اپنے منصوبوں کو نہایت کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ ویسے تو یہ عالمی نظام ہی سے خفیہ طور پر جار ی و ساری ہے لیکن کھل کر اس کا اعلان جارج بش سینئر نے کیا تھا۔ امریکا کی گرانڈ سیل کے سرکاری و غیر سرکاری موقف دونوں ہمارے سامنے ہیں، تاہم غیر سرکاری موقف زیادہ واضح اور قابل قبول نظر آتا ہے ورنہ مہر پر غیر معروف زبان میں عبارتیں تحریر کرنے اور مہر کو ہر ڈالر پر ثبت کرنے کیا ضرورت تھی؟