کیا مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مفتیانِ کرام کی طرح سوچ سکتے ہیں؟

دوسری قسط:
کسی بھی تحقیق کو سائنسی تحقیق جب گردانا جاتا ہے جب وہ دو اصولوں پر پوری اترتی ہو۔ یعنی اول یہ کہ اس تحقیق کی مدد سے انسانی علم میں ترقی لائی جائے اور دوم یہ کہ وہ تحقیق ان سائنسی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہو جس کی مدد سے ڈیٹا کو جمع کرنا، آرگنائز کرنا اور تجزیہ کرنا شامل ہیں جن کو سائنسدانوں نے وضح کیا ہو اور وہ اس کو قبول بھی کرتے ہوں (حوالہ: جان ریکر، سائنٹیفک ریسرچ ان انفارمیشن سسٹمز، اسپرنگر) خلاصہ یہ ہوا کہ سائنسی تحقیق اس تحقیق کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے سے نئے علم کی تخلیق اور تشریح کی جائے اور وہ سائنسی اصولوں کو مَدّنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہو نہ کہ چند اصطلاحات کو مصنوعی ذہانت سے سافٹ وئیر سے پوچھ لیا جائے۔

سوم: اس مقالے میں مصنف نے واضح طور پر یہ نتیجہ بیان نہیں کیا کہ پچیس فیصد شریعہ پروفیشنلز (انسانوں) نے مصنوعی ذہانت سے امتحان میں کتنے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ نیز یہ بھی بالکل واضح بیان نہیں کیا کہ ان میں سے ہر شریعہ پروفیشنلز نے انفرادی طور پر کتنے نمبر حاصل کیے؟

چہارم: عالمی سائنسدانوں کی ان گنت سائنسی تحقیقات ہیں جن میں مصنوعی ذہانت کے بنانے والوں نے اس کے نقائص سائنسی ثبوت و شواہد کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ اگر مصنف یہ چاہتے تھے کہ ثابت کریں کہ واقعی مصنوعی ذہانت کے ماڈلز ”سوچ” سکتے ہیں اور یہ ”مفتی” سے زیادہ ماہر ہیں تو پھر پہلے سائنسی اصول و ضوابط کے مطابق ان کو ان سائنسی تحقیقات کو رد سائنسی طریقہ سے کرنا چاہیے تھا اور اپنی سائنسی تحقیق کو عالمی معیار کے بہترین سائنسی جرائد میں شائع کرنا چاہیے تھا۔

پنجم: یہ تحقیقی مقالہ اپریل 2025میں پری پرنٹ کے طور پر شائع ہوا ہے جبکہ اسی موضوع پر ایک اور سائنسی تحقیقی مقالہ 2024میں بزنس ریویو میں چھپ چکا ہے۔ سائنسی تحقیق کرنے والوں کو یہ بنیادی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ لٹریچر ریویو مضبوط ہونا چاہیے۔ لٹریچر ریویو کا مقصد یہ ہے کہ ریسرچ گیپ معلوم کیا جائے یعنی یہ معلوم کیا جائے کہ اس وقت تک متعلقہ سائنسی مضمون میں وہ کون سی سائنسی مسائل یا سوالات ہیں جن پر کام کرنا باقی ہے، اور موجودہ سائنسی تحقیق میں کیا کچھ نقائص ہیں یا کہاں سائنسی تحقیق میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اگر ان نقائص اور سائنسی تحقیق میں بہتری کی گنجائش کی صحیح طور پر نشاندہی ہو جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک صحیح رخ پر اپنی تحقیق شروع کررہے ہیں۔ اسے آسان الفاظ میں پہیے کی دوبارہ ایجاد سے تعبیر کر سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سائنسدان اور محقق کو دوبارہ پہیے کی ایجاد نہیں کرنا بلکہ اس کو سب سے پہلے اب تک کی گئی سائنسی پیشرفت سے آگاہ ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنی تحقیق اس جگہ سے شروع کر سکے جہاں پر دنیا آج سائنسی لحاظ سے کھڑی ہے۔ کسی بھی محقق اور سائنسدان سے یہ بنیادی سوال پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ تمہارے کام میں جدت کا کیا پہلو ہے جس سے نئے علم کی تخلیق ہوتی ہو اور تمہارے سارے تحقیقی کام میں سائنسی طور پر تمہارا کیا ٹیکنیکل کنٹری بیوشن ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس تحقیقی مقالے میں اس سے ملتی جلتی تحقیق کا حوالہ تک نہیں دیا گیا کیونکہ کوئی بھی یہ سوال ضرور کرے گا کہ آپ کے تحقیقی کام میں جدت کا کون سا پہلو ہے اور آپ پرانی تحقیق سے کیسے مختلف ہیں؟

ششم: اس تحقیقی مقالے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ چیٹ جی پی ٹی نے ایوفی، بحرین کی سرٹیفائیڈ شریعہ ایڈوائزر اینڈ آڈیٹر (سی ایس اے اے) کی سرٹیفیکیشن کے امتحان میں سو میں سے چونسٹھ سوالوں کے جواب یعنی چونسٹھ فیصد جواب درست دیے ہیں۔ پھر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز شریعہ ایڈوائزری (فتویٰ نویسی) میں معاونت فراہم کرسکتے ہیں مگر شریعہ ایڈوائزر کی نگرانی میں۔ بات یہ ہے کہ ان مصنوعی ذہانت کی مشینوں سے ہرگز ہرگز شرعی مسائل نہیں پوچھنے چاہئیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شرعی مسائل کے صحیح و غلط جواب پر مسلمانوں کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی (یعنی آخرت) کا دار ومدار ہے اور فتویٰ نویسی کا کام بہت تربیت یافتہ اور اکابرین کی صحبت اٹھائے ہوئے مفتیانِ کرام ہی کا منصب ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی سو مریضوں (انسانوں) کو لے اور پھر مشین سے ان کے نہایت پیچیدہ دل و دماغ کے آپریشن کروائے۔ پھر نتائج پیش کرے کہ اس مصنوعی ذہانت کی مشین نے چونسٹھ فیصد صحیح آپریشن کیے اور چھتیس فیصد غلط آپریشن کیے یعنی سو میں سے چھتیس مریض (انسان) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کیا کوئی ذی شعورایسا کرنے کی اجازت دے گا؟ کیا کوئی حکومت، کوئی عدالت، کوئی حکمران، یا کوئی بھی شخص ایسی مصنوعی ذہانت کی مشینوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا رسک اٹھائے گا؟ جہاں پر انسان کی جان کی بات آتی ہے یا ایسے نظام جہاں پر بہت ہی نازک پیچیدہ مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے وہاں پر تو صفر اشاریہ ایک فیصد بھی غلط جواب کا متحمل نہیں ہوا جاتا لہٰذا یہ سوچ اور یہ فکر کرنا کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر ساٹھ، ستر یا نوے فیصد تک صحیح جواب دینے لگ گئے ہیں، اپنی بنیاد میں درست نہیں۔

پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ اگر ان سو شخصوں میں سے کوئی حلال حرام کا مسئلہ (مثلاً شراب یا سود) مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے پوچھتا ہے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہوتا ہے جو چھتیس لوگ تھے جن کو مصنوعی ذہانت نے غلط جواب دیا تھا تو اس شخص کے لیے تو شراب اور سود حلال ہوگیا۔ نیز بہت بڑی کمپنیوں میں عمومی طور پر شریعہ ایڈوائزر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور ان کا کام ان بڑی کمپنیوں کے معاملات پر شریعہ کمپلائنس کرنی ہوتی ہے۔ اس صورت میں اگر مصنوعی ذہانت سے شریعہ کمپلائنس کروائی جائے گی تو پھر تو پوری کمپنی ہی کی غلط شریعہ کمپلائنس ہوجائے گی اور جو کمپنی اپنی اصل میں سود، غرر، قمار اور دیگر حرام معاملات میں پڑی ہوئی تھی، مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر اس کی غلط شریعہ کمپلائنس کرکے اس کو ”اسلامک” کمپنی گرداننے لگیں گے اور اس پر شریعہ ایڈوائزر کی مہر بھی لگی ہوگی۔

ہفتم: مصنفین کو اگر واقعی حقیقی معیاری ”سائنسی تحقیق” کرنی ہی ہے تو صرف مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو استعمال کرکے ان کی صلاحیت کا اندازہ مت لگائیں بلکہ ان مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز میں بہتری لائیں جس سے انسانیت کو فائدہ ہو اور اپنی سائنسی تحقیقی کام کو اعلیٰ معیاری سائنسی جرائد میں شائع کروائیں۔ سائنسی تحقیق کا مقصد ڈگریوں یا اعلیٰ عہدوں کا حصول ہرگز نہ ہونا چاہیے۔

دوسرا تحقیقی مقالہ: ”اسلامک فنائنس میں شریعہ ایڈوائزری میں جنریٹیو مصنوعی ذہانت”
ایک تحقیقی مقالہ ”اسلامک فنائنس میں شریعہ ایڈوائزی میں جنریٹیو مصنوعی ذہانت” کے عنوان سے 2024میں بزنس ریویو میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں جس سائنسی تحقیقی سوال کا جواب ڈھونڈا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بطور ماہرِ شریعت (مفتی یا شریعہ ایڈوئزر) کے کردار ادا کرسکیں تاکہ شریعہ ایڈوائزری کے عمل میں مدد ہو؟ اس ضمن میں تین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز یعنی چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی، اور میٹا اے آئی، کی صلاحیتوں کو جانچا گیا ہے کہ کیا وہ شریعہ کمپلائنس (یعنی اس بات کو یقینی بنانا کہ شرعی قوانین پر عمل ہو رہا ہے) سے متعلق مسائل کی نشاندہی، متعلقہ شرعی حوالہ جات، اور اسلامک فنائنس کے تناظر میں شریعہ کمپلائنس کے لیے قابلِ عمل اقدامات تجویز دے سکتے ہیں یا نہیں؟ (جاری ہے)