رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
منگل کے روز دنیا نے ایک اور لرزہ خیز منظر دیکھا جب دجالی ریاست اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے وفد کو نشانہ بنایا۔ حملہ سفارتی حدود اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا جس نے واضح کر دیا کہ قابض اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ پورے عالم عرب میں اپنے ناپاک عزائم کے لیے سرگرم ہے۔ اگرچہ حماس کا مذاکراتی وفد جس کی قیادت ڈاکٹر خلیل الحیہ کررہے تھے اس حملے میں محفوظ رہا، تاہم اس کے نتیجے میں دس افراد جامِ شہادت نوش کر گئے جن میں ڈاکٹر خلیل الحیہ کے جواں سال فرزند ہمام الحیہ بھی شامل تھے۔
خون سے لکھی داستان
ڈاکٹر خلیل الحیہ محض ایک رہنما نہیں بلکہ وہ ایک ایسی متحرک شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے خون، آنسو اور ناقابلِ تصور قربانیوں کے ذریعے مزاحمت کا علم تھاما ہوا ہے۔ ان کی زندگی شہادتوں، صدمات، قربانیوں اور انقلابی جذبے کی ایک ایسی ناقابلِ فراموش داستان ہے جو تاریخ کے ماتھے پر سنہری حروف سے لکھی جا چکی ہے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ ایک ہی خاندان بار بار صہیونی نشانے پر آئے بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، ایک خاموش پیغام کہ جو اسرائیل کے ناپاک عزائم کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوگا، اس کے وجود کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
پہلا زخم…. اور مسلسل وار
سنہ 2007ء میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں خلیل الحیہ کا گھر تباہ کیا گیا اور اس قیامت خیز سانحے میں ان کے سات بیٹے اور دیگر قریبی رشتہ دار شہید ہو گئے۔ ایک باپ کے لیے یہ لمحہ موت سے بڑھ کر ہوتا ہے لیکن خلیل الحیہ نے نہ ہار مانی، نہ ماتم کے سائے میں اپنے مشن سے ہٹے۔ ان کا یہی کہنا تھا:”میرے بیٹے اور میرا خاندان فلسطین اور مسجد اقصیٰ سے زیادہ قیمتی نہیں، مزاحمت ہی ہماری نجات اور فتح کا واحد راستہ ہے۔“اس اعلان نے انہیں محض ایک رہنما نہیں بلکہ ایک استعارہ بنا دیا صبر، استقلال اور عزیمت کا استعارہ۔
انتقام کی لہر جو تھمی نہیں!
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اسرائیل ہر جنگ، ہر جارحیت، ہر بمباری میں ڈاکٹر خلیل الحیہ کے خاندان کو خصوصی طور پر نشانہ بناتا رہا ہے۔ سنہ 2014ء میں ایک اور قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے جو اگرچہ ناکام رہا مگر اُن کے خاندان کے کئی افراد پھر شہید ہو گئے۔ پھر 2023ء میں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے آغاز سے قبل اور اس کے بعد ان کے 22 سے زائد رشتہ دار شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔یہ ایک غیرمعمولی اعداد و شمار ہیں۔ یہ اس جدوجہد کی قیمت ہے جس کا خلیل الحیہ نے انتخاب کیا ہے۔
دوحہ کا خونچکاں لمحہ
دوحہ جو عرب دنیا کا نسبتاً محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا تھا، اب اسرائیلی سربیت سے محفوظ نہ رہا۔ حالیہ حملہ نہ صرف سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اس انتقامی جذبے کا اظہار ہے جس کے تحت اسرائیل اب دوسرے ممالک کی حدود میں بھی فلسطینی قیادت کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا۔اس حملے میں شہید ہونے والوں میں؛ ہمام خلیل الحیہ (ابویحییٰ) ڈاکٹر خلیل الحیہ کے جواں سال بیٹے، جہاد لبد (ابو بلال) دفتر کے ڈائریکٹر، عبداللہ عبدالواحد (ابو خلیل) محافظ، مو¿من حسونہ (ابوعمر) محافظ، احمد المملوک (ابومالک) محافظ، بدر سعد محمد الحمیدی قطری داخلی سیکورٹی کے افسر۔ یہ سب محض افراد نہیں بلکہ وہ شمعیں تھیں جو مزاحمت کے راستے پر روشن تھیں اور اب اپنی جانیں دے کر اس راستے کو مزید منور کر گئیں۔
قطر کی سرزمین پر خون۔ایک نیا باب
یہ حملہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ یہ پیغام ہے کہ اسرائیل کے ہاتھ اتنے طویل ہو چکے ہیں کہ وہ اب خلیجی ریاستوں کے دارالحکومتوں میں بھی کارروائی کرنے سے نہیں چوکتے۔ قطر جیسے ملک میں اس حملے کا ہونا اس امر کی گواہی ہے کہ فلسطینی قیادت دنیا کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں۔ یہ بین الاقوامی قوانین، خودمختاری اور سفارتی اقدار کی بے حرمتی ہے جس پر پوری مسلم امہ کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
حوصلے جو پست نہ ہوئے
اتنے زخم، اتنی قربانیاں، اتنا غم، مگر ڈاکٹر خلیل الحیہ کی زبان پر اب بھی وہی الفاظ ہیں جو وہ برسوں سے دہرا رہے ہیں: ”ہماری نجات مزاحمت میں ہے، پسپائی میں نہیں۔“ ”ہمیں مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اپنے بیٹے بھی قربان کرنے پڑیں تو دریغ نہیں کریں گے۔“ ان کا یہ حوصلہ، یہ استقامت، دشمن کو بے چین کیے رکھتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایسے لوگ شکست نہیں کھاتے۔
مذاکرات اور مزاحمت: ایک ساتھ
خلیل الحیہ کو حماس کی قیادت نے قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے مذاکرات کا انچارج مقرر کیا ہے۔ ان کی قیادت میں مذاکرات کا عمل اس حقیقت کا مظہر ہے کہ حماس اپنے اُصولی موقف کے ساتھ دنیا سے رابطہ رکھتی ہے اور اپنی قوم کے مفادات کے لیے ہر ممکن راستہ تلاش کرتی ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔
یارانِ وفا: ہنیہ، سنوار اور حیہ
خلیل الحیہ کے قریبی رفیق اسماعیل ہنیہ، جن کے اپنے تین بیٹے اور پوتے شہید ہوچکے، اب ان سے ایک اور مشترک دکھ میں شریک ہیں جبکہ یحییٰ سنوار کے ساتھ ان کا رشتہ محض تنظیمی نہیں بلکہ خالصتاً فکری و مزاحمتی بنیادوں پر اُستوار ہے۔ یہ قیادت ایسی آہنی چٹان بن چکی ہے جسے نہ بم ہلا سکتے ہیں، نہ میزائل، نہ خاندانی نقصان۔
مزاحمت کا پیغام جو نہیں بدلا!
قابض اسرائیل اپنے حربے بدلتا ہے: کبھی میزائل، کبھی سائبر حملے، کبھی سفارتی دباو اور اب دوسرے ملکوں میں ٹارگٹ حملے، مگر خلیل الحیہ اور ان جیسے مجاہدین کا موقف نہیں بدلا۔ وہ آج بھی اسی راہ پر گامزن ہیں جسے امام احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور دیگر شہدا نے روشن کیا تھا۔ان کے لہجے میں آج بھی وہی عزم ہے: ”فلسطین کا ہر گھر، ہر گلی، ہر بچہ، ہر ماں ایک سپاہی ہے۔ ہم تھکنے والے نہیں، جھکنے والے نہیں، مرنے والے ضرور ہیں، مگر غلامی میں جینے والے نہیں۔“ ڈاکٹر خلیل الحیہ کی زندگی ایک داستانِ عزیمت ہے۔ وہ اس نسل کے نمائندہ ہیں جو فلسطین کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرچکی ہے اور ابھی مزید قربانی کے لیے تیار ہے۔ ان کا راستہ نہ جنگ سے گریز کرتا ہے، نہ امن سے بھاگتا ہے بلکہ ایک متوازن، غیرت مند اور جری قیادت کا مظہر ہے۔ اگر اُمت مسلمہ میں کچھ باقی ضمیر ہے تو خلیل الحیہ جیسے مردانِ حق کو دیکھ کر اسے جاگ جانا چاہیے کیونکہ اگر ایسی قربانیوں کے بعد بھی ہم خاموش ہیں تو شاید ہم مردہ ضمیر ہیں۔
