غزہ صحافیوں کا قتل عام

پاکستان میں سیلاب، قدرتی آفات اور دہشت گردی جاری ہے، دوسری جانب روس یوکرین جنگ میں شدت آرہی ہے، لیکن سب سے اہم مسئلہ غزہ کا ہے، جیسے ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر عالمی میڈیا سے دور کیا جا رہا ہے۔یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ دنیا میں جاری مسائل اور سازشوں کی پشت پر صہیونی طاقتیں ہیں، انہوں نے ہر ایک کو مصروف کیا ہوا ہے، کوئی معیشت کی وجہ سے پریشان ہے، کوئی اپنی دفاع کے لئے تیاری کر رہا ہے، کسی کو اپنی حکمرانی کے تحفظ کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اس منظر نامے میں غزہ میں قتل عام تیز ہوگیا ہے۔ صرف ایک دن میں پانچ صحافیوں سمیت بیس افراد کو شہید کردیا گیا ہے، اسرائیل اتنا شیر ہوگیا ہے کہ اب کھول کر صحافیوں کوبھی نشانہ بنارہا ہے، خبر سامنے ہے، کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک ہی روز میں 6صحافیوں کو شہید کردیا۔ غزہ کے النصر اسپتال پر یکے بعد دیگرے دو فضائی حملے کیے گئے جس میں مریضوں، ڈاکٹروں، شہری دفاع رضاکاروں اور پانچ صحافیوں سمیت 20 افراد شہید ہوئے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کا کیمرا مین حسام المصری، امریکی خبر ایجنسی اے پی اور برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی نامہ نگار مریم ابودقہ، امریکی ٹی وی این بی سی کا صحافی معاذ ابوطحٰہ، الجریزہ کا فوٹو جرنلسٹ محمد سلامہ اور قدس نیٹ ورک کا صحافی احمد ابو عزیز شہداء میں شامل ہیں۔ صحافی اسپتال میں اسرائیل کے جبری قحط کا شکار فلسطینیوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔

یہ وہ صورت حال ہے کہ جس پر صحافیوں کی عالمی تنظیمیں بھی خاموش ہیں، البتہ پاکستانی صحافیوں نے چند روز قبل کراچی پریس کلب کے باہر اسرائیلی مظالم اور صحافیوں کی شہادت کے حوالے مظاہرہ کیا ، بہت اچھا قدم تھا، اسے مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے، کراچی پریس کلب اور فیڈریل یونین آف جرنلسٹ کو آگے بڑھ کر دنیا بھر کے صحافی تنظیموںسے رابطے کرنے ہوں گے، کیونکہ انسانیت کے ساتھ ساتھ اب یہ صحافیوں کی بقا کا مسئلہ ہے، آزادیٔ صحافت کا مسئلہ ہے۔ اسرائیل اس طرح صحافیوں کو نشانہ بناتا رہا تو وہاں سے مظلوموں کی خبر دینے والے بھی ختم ہوجائیں گے۔ ایک آدھ احتجاج سے کام نہیں بننے والا، صحافیوں کو عالمی سطح پر رابطے کرنے ہوں گے، اس سنگین صورت حال پر فالو اپ اسٹوریاں کرنی ہوں گی، کالم، وی لاگ، یوٹیوب، سوشل میڈیا پر مزید کام کی ضرورت ہے، سیمنارز ورکشاپ سمیت او آئی سی، عرب لیگ، سلامتی کونسل، اقوام متحدہ سے مسلسل رابطوں کے ٹیمیں بنانی ہوں گی۔

غزہ میں قحط کا عالم ہے، لوگ بھوک سے مرر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انسانیت مرر ہی ہے، جو بھی امداد پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، اسے روک دیا جاتا ہے، ترکی سمیت پڑوسی مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی سکوت مرگ طاری ہے، گزشتہ ماہ ا یک علامتی امدادی قافلے کو بھی اسرائیل نے بیدردی سے نشانہ بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کو عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں، اسرائیلی فوج غزہ میں بے یارو مددگار فلسطینیوں کی امداد کے لیے آنے والے قافلوں کو بھی نہیں بخش رہی۔اب صحافیوں کو نشانہ بناکر وہ غزہ کے مظلوموں کی آواز کو بھی دبانا چاہتا ہے۔

اس کے بعد عالمی برادری اور عالم اسلام پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟یہ کوئی محتاج بیان امر نہیں ہے۔امت مسلمہ پر تو بحیثیت مجموعی جہاد فرض ہوچکا ہے اور علماء ایک سے زائد بار فتوی دے چکے ہیں۔مسلم حکمران عوام سے ہمیشہ کہتے ہیں کہ ریاست کے بغیر جہاد نہیں ہوتا،یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے لیکن جب مسلم ریاستیں60ہزار مسلمانوں کا خون بہائے جانے کے بعد بھی بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہوں تو مسلمان عوام کو کیا کرنا ہے ؟اس پر بھی کچھ رہنمائی مطلوب ہے۔کم سے کم درجے میں مسلم حکومتوں یا دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو غزہ تک امداد کی رسائی اور اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لیے قافلے تو روانہ کرنے چاہئیں۔حالیہ دنیا غیر مسلم ممالک سے امدادی قافلے غزہ کے ساحل پر پہنچے،ٹھیک ہے اسرائیل نے انہیں پہنچنے نہیں دیا مگر اس سے اسرائیل کا چہرہ تو بے نقاب ہوا۔کیا اسلامی تنظیمیں اس طرح کے قافلے نہیں بھیج سکتیں؟ کب تک ہم حکمرانوں کے آسرے پر بیٹھے رہیں گے؟ جبکہ پاکستان سے لے کرسعودی عرب تک سارے حکمرانوں کو اپنی کی فکر ہے۔ امت مسلمہ کا رہنما کون ہوگا، سعودی عرب یا پاکستان، یا ایران، اور یا ترکی، اس کی خواہش تو سب کو ہے، لیکن غزہ کے معاملے میں سب کی بے حسی نمایاں ہے۔ اللہ تعالیٰ غزہ کے ساتھ ساتھ ہم پر رحم فرمائے۔ یہ جنگ روکنے والی نہیں، اس کے شعلوں سے عرب بھی متاثر ہوگا۔نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کردیا ہے،یہ محض کوئی شوشہ نہیں ہے بلکہ صہیونیت کا دیرینہ منصوبہ ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بزدلی کا یہی عالم رہا تو اسرائیل فلسطین تک محدود نہیں رہے گا۔ مسلم حکمرانوں کو بھی اہل غزہ کی کوئی فکر نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں بھی یہی مطلوب ہے کہ غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام جلد مکمل ہو جائے تاکہ وہ دباؤ سے آزاد ہو سکیں۔ہر طرف بے حسی کا سناٹا چھایا ہوا ہے جبکہ ستاون اسلامی ملکوں کے جرنیل اور حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ یہ حکمران نہ خود کچھ کر رہے ہیں اور نہ ہی عوام کو احتجاج کرنے دے رہے ہیں۔ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں ہونے والے احتجاج پر بھی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ کیا اس سے اسرائیل کو مزید تقویت نہیں ملے گی؟