خواص کی تبلیغی جماعت!

آپ ہمارا المیہ دیکھیں، ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ کے بیشتر اداروں، حکومتی مشینری اور تعلیمی و سماجی ڈھانچے میں ایسے اعمال کھلے عام ہو رہے ہیں جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے صریح منافی ہیں بلکہ آئین پاکستان کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان اعمال کی موجودی اور ان کے فروغ سے ملک میں ایسا ماحول پروان چڑھ رہا ہے جو دین اسلام کی بجائے مغربی تہذیب کا آئینہ دار ہے اور سماج کو بحیثیت مجموعی بے حیائی و فحاشی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سرکاری تقریبات میں کھلم کھلا ناچ گانا اور مخلوط محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی تقریبات ہوں یا سرکاری دنوں پر ہونے والے قومی پروگرام ان میں رقص و سرود اور ناچ گانے کا ایسا رنگ غالب ہوتا ہے جو اسلامی ریاست کے بالکل برعکس ہے۔ قومی ٹیلی ویژن پر ایسے ڈرامے اور پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جن میں نہ صرف بے حیائی اور خاندانی نظام کی بربادی دکھائی جاتی ہے بلکہ نسل نو کو دین سے دور اور گناہ کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں موجود مختلف حکومتی اداروںسمیت مختلف ممالک میںموجود پاکستانی سفارت خانوں میں منعقدہ سرکاری تقریبات کے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں بلکہ سیکولر اسٹیٹ ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں مخلوط پارٹیاں، ڈانس شوز اور ایسے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جو اسلامی اقدار کے صریحاً خلاف ہیں۔ بینکاری نظام مکمل طور پر سود پر استوار ہے، حالانکہ آئین پاکستان میں واضح لکھا ہے کہ ملک میں سودی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عدالتیں بارہا یہ فیصلہ سنا چکی ہیں کہ سودی نظام کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ معاشرے میں جسم فروشی کے اڈوں، ہم جنس پرستی اور الحاد جیسے فتنوں کو بھی خاموش پذیرائی مل رہی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر فحش مواد کی ترسیل اس قدر عام ہے کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ اس دلدل میں پھنس چکا ہے۔ ٹک ٹاک جیسی ایپس پر کھلے عام بے حیائی پھیلائی جاتی ہے اور نوجوان اس کو تفریح کے نام پر اپنا رہے ہیں۔ میڈیا پر ایسے ڈرامے اور فلمیں دکھائی جاتی ہیں جن میں نہ صرف گناہ کو خوشنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ خاندان کی بنیادیں ہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نظام عدل میں طاقتور کو تحفظ دیا جاتا ہے اور کمزور انصاف سے محروم رہتا ہے۔ نظام معیشت مکمل طور پر غیرشرعی بنیادوں پر اُستوار ہے، نظام تعلیم میں الحاد اور مغربی فکر کا رنگ غالب ہے اور نظام صحت میںاسلامی اصولوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن نہ ریاست اس کے تدارک کے لیے کوئی مضبوط میکنزم بنا رہی ہے اور نہ ہی نجی سطح پر کوئی بڑی تحریک اس کے خلاف کھڑی ہو رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ وبائیں دن بدن پھیلتی جا رہی ہیں اور معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔

ایسے حالات میں نئے فکری و عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جس طرح عوام میں ”تبلیغی جماعت” کے عنوان سے ایک جماعت تذکیر کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، اسی طرح خواص کو خصوصی انداز میں تبلیغ کرنے کے لیے بھی ایک جماعت قائم کی جائے جو معاشرے کے ان طبقات تک رسائی حاصل کرے جو طاقت کے مراکز اور فیصلہ ساز ہیں۔ یہ حکومتی عہدیداران، بیوروکریسی، عدلیہ، افواج پاکستان، سرکاری تعلیمی اداروں، میڈیا ہاؤسز اور دیگر بڑے اداروں کے ارباب حل و عقد کو تذکیر کرے کہ آپ کے ماتحت اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ انہیں یاد دہانی کرائے کہ آئین پاکستان ریاست کو پابند کرتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے لیکن جب ریاستی ادارے خود اس کے خلاف عمل کریں گے تو وہ نہ صرف دینی اعتبار سے گناہ کے مرتکب ٹھہریں گے بلکہ آئینی اعتبار سے بھی مجرم قرار پائیں گے۔

اگریہ جماعت کسی سرکاری یونیورسٹی کے پرنسپل کو جا کر بتائے کہ آپ کے ادارے میں ڈانس پارٹی یا غیراسلامی محافل کا انعقاد اسلامی احکام کے ساتھ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے تو اس کا اثر مختلف ہوگا۔ اگر یہ جماعت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو تذکیر کرے کہ آپ کے ایونٹ میں ڈانس اور گانے کا اہتمام آئین کے اسلامی پہلوؤں کی خلاف ورزی ہے تو یہ محض ایک مذہبی تنبیہ نہیں رہے گی بلکہ ایک آئینی نکتہ بن جائے گی۔ اسی طرح اگر پی ٹی وی کے چیئرمین کو باور کرایا جائے کہ قومی چینل پر غیرشرعی ڈرامے نشر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے تو یہ ایک ایسا استدلال ہوگا جسے نظرانداز کرنا مشکل ہوگا۔ یہ جماعت تذکیر کے دوران صرف مذہبی حوالہ نہ دے بلکہ آئین پاکستان کے واضح نکات پیش کرے۔ اس سے یہ تاثربھی نہیں ابھرے گا کہ کوئی مذہبی گروہ اپنے خیالات مسلط کر نا چاہ رہا ہے اورنہ ہی ان کی بات کو نظر انداز کیا جا سکے گا۔ اس طرح یہ تذکیر آئین و قانون کا بھی حصہ بن جائے گی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو قانونی اعتبار سے بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسی جماعت تیار کیسے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کوئی جذباتی ہجوم نہ ہو بلکہ ایک منظم، پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ ہو۔ اس جماعت کے افراد نہ صرف دین کا علم رکھتے ہوں بلکہ جدید علوم، نفسیات، زبان اور سماجی محاورے سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ انہیں آئین پاکستان خصوصاً اس کی اسلامی دفعات کا مکمل علم ہو۔ وہ حکومتی ڈھانچے، عدلیہ، بیوروکریسی اور دیگر اداروں کے اسٹرکچر کو سمجھتے ہوں۔ یہ تحمل مزاج، نرم خو اور اخلاص کے پیکر ہوں۔ یہ جماعت کوئی وقتی مہم نہ ہو بلکہ برسوں کی تیاری کے بعد ایک پختہ منصوبے کے ساتھ وجود میں آئے۔ جب یہ جماعت تیار ہو جائے تو رضاکارانہ طور پر مختلف اداروں تک رسائی حاصل کرے۔ سرکاری یونیورسٹیز، کالجز، اسکولز، بینکوں، عدالتوں، ہسپتالوں، پولیس افسران، فوجی افسران، میڈیا ہاؤسز، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر، ڈی پی او ہاؤسز اور بیوروکریسی میں جا کر تذکیر کرے۔ اس تذکیر میں قرآن و سنت کے ساتھ آئین پاکستان کا حوالہ بھی دے۔ اس کے نتیجے میں جب حکام بالا کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے ماتحت اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر وہ قیامت کے دن بھی جواب دہ ہیں اور دنیا کے آئین کی روشنی میں بھی مجرم ہیں تو اس کا اثر ضرور ہوگا۔ اس احساس کے اثرات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے اور آہستہ آہستہ پورا معاشرہ اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش کرے گا۔

جب کسی ادارے کا سربراہ یہ سمجھے گا کہ غیراسلامی عمل محض گناہ نہیں بلکہ آئینی جرم بھی ہے تو اس کے لیے اس کو روکنا لازمی اور آسان ہو جائے گا۔ یوں آئین کی اسلامی دفعات محض کتابی باتیں نہیں رہیں گی بلکہ اس کے عملی نفاذ کے امکانات روشن ہوں گے۔ اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ خواص پر محنت کی جائے اور انہیں ان کے مذہبی و آئینی فرائض کی تذکیر کی جائے۔ حکمران طبقے، ارباب حل و عقد، بیوروکریسی اور اہم ریاستی اداروں کے ذمہ داران کو یاددہانی کرائے جائے کہ آپ آزاد اور خود مختار نہیں ہیں بلکہ آپ کی اصل ذمہ داری قرآن و سنت اور آئین کے مطابق ملک کو چلانا ہے۔ قرآن و سنت اور آئین سے ہٹا ہوا آپ کا ہر عمل دنیا و آخرت میں جرم اور قابل سزا ٹھہرے گا۔