قدرتی آفات کا ضابطہ اور اسوۂ نبوی

2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد قدرتی آفات کے اسباب سے متعلق بحث کے دوران لکھا گیا یہ کالم موجودہ حالات کے تناظر میں نذر قارئین ہے:
”محترم ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب نے ایک اخباری انٹرویو میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصوں میں آنے والے زلزلے کے بارے میں یہ نہ کہا جائے کہ یہ لوگوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں آیا ہے، اس لیے کہ جو لوگ اس زلزلے کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں ان کی اکثریت دیندار لوگوں کی ہے، اور ان میں ایسے جرائم موجود نہیں تھے جو اس قسم کے آسمانی عذاب کا باعث بنتے ہیں۔

ظاہری اور معروضی صورتحال کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا یہ اشارہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ آزاد کشمیر اور ہزارہ وغیرہ کے جن علاقوں میں اس خوفناک زلزلے نے تباہی پھیلائی ہے اور ہزاروں افراد جاں بحق ہونے کے علاوہ لاکھوں حضرات اس سے متاثر ہوئے ہیں، ان علاقوں کے مسلمان فی الواقع دیندار اور اسلامیت میں بہت سے دیگر علاقوں سے ممتاز ہیں اور بظاہر ان علاقوں میں ایسے جرائم کا ظہور و غلبہ نظر نہیں آتا جو خدائی عذاب کو دعوت دیتے ہوں۔ مگر قصہ یہ ہے کہ آسمانی عذاب کے فیصلے افراد یا طبقات کے گناہوں پر نہیں بلکہ قوموں کی اجتماعی صورتحال پر ہوا کرتے ہیں، اور جب کسی قوم کے اجتماعی گناہوں اور بغاوت کے نتیجے میں خدائی عذاب آتا ہے تو پھر نیک و بد کی تمیز نہیں رہ جاتی اور سب کو اس سزا کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ قرآن کریم نے ماضی میں قدرتی آفات کے ذریعے قوموں کو سزا دینے کے جن واقعات کا تذکرہ کیا ہے ان پر ایک نظر ڈال لیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایک تو قرآن کریم نے سیلاب، طوفان، زلزلہ، شکلوں کے مسخ ہونے، اور اس قسم کی جن قدرتی آفات کا ذکر کیا ہے، انہیں کسی نہ کسی قوم کی اجتماعی غلط کاریوں سے منسوب کیا ہے اور قوموں کی اجتماعی بغاوت کو ان کا سبب بتایا ہے۔دوسرا یہ کہ ایک آدھ استثنا کے ساتھ قرآن کریم میں جہاں بھی قدرتی آفات کو بطور سزا بیان کیا گیا ہے اس کا باعث افراد کی بجائے قوموں کے جرائم کو قرار دیا ہے۔

ہم اگر افراد یا طبقات کے محدود تناظر سے بلند ہو کر پوری زمین پر بسنے والی نسلِ انسانی کے اجتماعی تناظر پر نظر ڈالیں تو تھوڑے سے وقفے میں زمین کے تین مختلف حصوں میں سونامی، قطرینا، ریٹا اور زلزلہ کے نام پر سامنے آنے والی تباہ کاریوں کا تسلسل اس امر کی غمازی کرتا ہے۔ اور اگر قرآن کریم کے اسلوب کے مطابق ان تباہ کاریوں کو خدائی عذاب کی ایک شکل تصور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ قدرتِ الٰہی نسلِ انسانی کے مجموعی ماحول کے حوالے سے غصے اور غضب کا اظہار کر رہی ہے۔ اور اس کی وجہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے نسلِ انسانی کو جو احکام و ہدایات بھیجی ہیں، اور جو آج بھی قرآن کریم اور بائبل کی صورت میں موجود ہیں، ان پر پوری نسلِ انسانی میں کہیں بھی عمل نہیں ہو رہا، اور کم و بیش تمام اقوامِ انسانی آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے اپنی عقل اور خواہشات کی پیروی میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ مسلم اقوام و ممالک، جو عقیدے اور فکر کی حد تک اب بھی آسمانی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، اطاعت، عمل اور نفاذ کی دنیا میں وہ بھی ان سے دستبرداری کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس لیے اگر اس معاملے کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو صورتحال کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ نسلِ انسانی نے اجتماعی طور پر آسمانی تعلیمات اور احکامِ خداوندی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے، اور قدرتِ الٰہی اس پر پوری نسلِ انسانی کے خلاف غیظ و غضب کا اظہار کر رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ جب اقوام کو سزا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اس کی زد میں صرف بغاوت کرنے والے ہی نہیں آتے بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں قانونِ خداوندی کی تشریح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ارشادات میں خود فرمائی ہے، جن میں سے اس وقت دو روایات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ایک روایت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق سے ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس قوم میں نافرمانی کے اعمال عام ہو جائیں اور دوسرے لوگ اس بات پر قدرت رکھتے ہوں کہ وہ نافرمانی کے اعمال کو روک سکیں اور وہ اس کے لیے متحرک نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ سب پر عذاب نازل کر دیتا ہے۔ایک اور روایت میں حضرت صدیق اکبر ہی نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے روک سکتے ہوں لیکن روکنے کی کوشش نہ کریں، تو اللہ تعالیٰ اس کی سزا سب کو دیتا ہے۔

یہ سوال کہ جو لوگ خود گناہ، نافرمانی اور بغاوت میں شریک نہیں ہیں، وہ آخر سزا میں کیوں شریک ہوں گے؟ اس وقت بھی ذہنوں میں آیا تھا جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس قانونِ خداوندی کی مذکورہ بالا وضاحت فرمائی تھی۔ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ پوچھ لیا تھا کہ کیا نیک لوگ بھی اس عذاب کا شکار ہوں گے؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس دنیا کے عذاب میں وہ بھی دوسروں کے ساتھ شریک ہوں گے، البتہ آخرت میں سب لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ ان ارشادات کو سامنے رکھا جائے تو اقوام کیلئے دنیا اور آخرت میں سزا و عذاب کے ضابطے الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی فرد کی ذاتی نیک، ایمان اور کردار آخرت میں اس کی نجات کا باعث بنے گا اور وہاں یہ چیزیں اس کے کام آئیں گی، لیکن دنیا میں کسی قوم پر خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے ذاتی نیکی اور ایمان کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ سوسائٹی کو نافرمانی اور گناہ و بغاوت کے ماحول سے نکالنے کے لیے محنت کرنا بھی ضروری ہے۔ کوئی شخص خود ذاتی طور پر نیک ہے لیکن سوسائٹی میں بغاوت و عصیان کے خلاف جدوجہد میں شریک نہیں ہے تو دنیاوی عذاب میں وہ بھی شریک ہو گا۔ پھر اس معاملے میں فیصلہ چند افراد پر نہیں بلکہ عمومی ماحول اور اجتماعی صورتحال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اور اس کا ذکر بھی حضرت ابوبکر صدیق کی اس روایت میں موجود ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دنیا میں کسی قوم پر اجتماعی سزا کے لیے چند افراد کا گناہ اور بغاوت کے ماحول کے خلاف متحرک ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ غلبہ اور کثرت کی بنیاد پر قدرتِ خداوندی سزا کے لیے حرکت میں آتی ہے۔اس پس منظر میں ہمیں افراد اور طبقات کی نیکی یا گناہ کے دائرے میں سوچنے کی بجائے قومی اور عالمی سطح پر مجموعی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس المیہ کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے، اور نسلِ انسانی بالخصوص مسلم امہ اور پاکستانی قوم کو ان سے آگاہ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمیں قدرتی آفات کے ظاہری اسباب سے انکار نہیں ہے، اسباب کے درجے میں یقینا وہی ان آفات کا باعث بنتے ہیں اور ہمیں اسباب کی دنیا میں احتیاط اور تحفظ کے تمام ذریعے اختیار کرنے چاہئیں لیکن یہ حقیقت بھی ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اسباب کے پیچھے بھی ایک قوت ہے جو یہ اسباب پیدا کرتی ہے، ان سے کام لیتی ہے، انہیں کبھی کبھی بیکار بھی کر دیتی ہے، اور انہیں ہر لحاظ سے اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔ اس قوت کی منشا اور رضا و ناراضی سے بے نیاز اور بے پروا ہو کر ہم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔

اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قدرتی آفات قدرت کی طرف سے سزا اور عذاب ہی کی صورت ہیں جو نسلِ انسانی کو آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اور ہمیں یعنی پاکستانی قوم کو قرآن و سنت کے احکام و نظام سے روگردانی پر تنبیہ کرنے اور ہمارا رخ صحیح کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں۔ گویا نسلِ انسانی کی مجموعی بغاوت کی سزا اس کے ایک حصے کو ملی ہے اور پاکستانی قوم کی مجموعی بدعہدیوں کی سزا اس کے ایک حصے کو بھگتنا پڑی ہے۔ اگر ہم نسلِ انسانی اور پاکستانی قوم کو ایک وجود اور جسم کی شکل میں تصور کریں تو یہ بات سمجھنا مشکل بھی نہیں ہے کہ جسم کا صرف ایک حصہ (مثلاً زبان) جرم کرتا ہے لیکن سزا باقی جسم کو بھگتنا پڑتی ہے، جبکہ جرم کرنے والا عضو اکثر اوقات خود اس سزا سے بچ جایا کرتا ہے۔

اگر ہم ان قدرتی آفات کو قدرت کی ناراضی کی علامت سمجھیں اور ہم سب کی زبانوں پر استغفار جاری ہو جائے، تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ بھی زندہ ہوگی اور قدرتِ الٰہی کا غصہ بھی کم ہو گا۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی مشکلات اور مصائب کے ظاہری اسباب کے تعین اور ان کے سدباب کی ضروری تدابیر کے ساتھ ساتھ ان اسباب کو وجود میں لانے اور ان پر اصل کنٹرول رکھنے والی ذات کی خوشنودی اور ناراضگی کا لحاظ رکھنے کا بھی اہتمام کریں؟