ایک دکاندار کو فون کیا کہ کراچی سے طوفانی بارش کی خبریں مل رہی ہیں، آپ کہاں ہیں اور کیا صورتِ حال ہے؟ کہنے لگے: ارد و بازار کراچی میں ہوں اور شدید بارش ہے۔ پانی بس دکانوں کے اندر داخل ہوا چاہتا ہے۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ڈوب چکی ہیں اور انہیں اب یہیں چھوڑ کر گھر جانا پڑے گا۔ گھر پیدل جائیں گے کیسے، یہ الگ بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ساری رات یہاں رک بھی نہیں سکتے۔ ایک اور دوست کو فون کیا، وہ میٹروپول ہوٹل کے قریب ٹریفک جام میں تھے اور بہت پریشان تھے۔ بولے: اس طرح پھنسے ہیں کہ نہ آگے جا سکتے ہیں نہ پلٹ سکتے ہیں۔ گلستان جوہر کیسے اور کب پہنچیں گے، کچھ پتا نہیں۔ ایک اور دوست شاہراہ فیصل نرسری پر نیم غرقاب تھے۔ نرسری کا سار اعلاقہ ہمیشہ بارش میں جھیل بن جاتا ہے۔ ان کی صورتحال ان کی آواز سے ظاہر تھی۔ گاڑی میں پانی داخل ہو رہا تھا۔ کہنے لگے: جگہ جگہ گاڑیاں بند نظر آ رہی ہیں اور کچھ تو باقاعدہ پانی میں تیر رہی ہیں۔
اس دن کراچی میں جسے فون کیا، ایسی ہی کہانیاں سننے کو ملیں۔ سب سے برا حال مرکزی شہر کا تھا جہاں بڑی مارکیٹیں، دفاتر، اہم ادارے اور عمارتیں موجود ہیں۔ زیادہ تر لوگ رہائشی علاقوں سے اسی علاقے میں اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں کے لیے آتے ہیں اور عام دنوں میں بھی اس علاقے میں صبح اور شام کے اوقات میں گاڑی چلانا باقاعدہ ایک آزمائش ہے۔ مرکزی شہر کے علاوہ اعلیٰ آبادیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ویسے عام حالات میں بھی ان علاقوں کی سڑکوں اور سیوریج کی حالت دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں اعلیٰ بستیوں میں شمار کیا بھی جائے یا نہیں۔ لیکن بارش کے دنوں میں تو یہاں کے راستے نالے بنے ہی رہتے ہیں؛ چنانچہ پانی گھروں میں داخل ہونے کی خبریں مل رہی تھیں۔ میری زندگی کا خاصا وقت کراچی میں گزرا ہے۔ کورنگی، ناظم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ، دستگیر کالونی، گرومندر، اردو بازار اور لسبیلہ وغیرہ۔ مجھے وہ سارے لمحات یاد آنے لگے جو میں نے ایسی ہی طوفانی بارشوں میں بھگتے تھے۔ بچپن سے اب تک بے شمار ایسے واقعا ت یاد ہیں اور وہ بے بسی بھی، جس میں آپ خود کو اور اپنے سامان کو پانی میں ڈوبتا دیکھتے ہیں اور بچائو کا راستہ کوئی نہیں ہوتا۔ ایسی بارش میں شاہراہ فیصل پر جانا بدترین فیصلہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہی تو واحد راستہ ہوتا ہے۔ اسے اختیار نہ کریں تو پھر کریں کیا؟ ایئر پورٹ کے قریب کا علاقہ جو سب سے بہتر ہونا چاہیے، ہمیشہ سب سے برا ثابت ہوتا ہے۔ کئی بار مسافر تو کیا، خود جہاز کا عملہ ایئر پورٹ تک نہیں پہنچ پاتا، سو فلائٹس جانے کا بھی سوال نہیں۔
اس دن میرے بھتیجے اپنی فیملی کے ساتھ حیدر آباد سے واپس کراچی آ رہے تھے۔ راستے میں نہ زیادہ بارش تھی، نہ زیادہ پانی؛چنانچہ وہ ایئر پورٹ تک پہنچ گئے۔ لیکن گھر جانے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ جب کوئی راستہ نہ رہا تو انہوں نے کوشش کی کہ ایئر پورٹ کے قریب کسی ہوٹل میں کمرہ لے کر رات وہیں رک جائیں۔ لیکن کسی ہوٹل میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا کیونکہ وہاں وہ سب لوگ مقیم تھے جو ایسے ہی ہنگامی حالات میں یہاں پہنچے تھے۔ ہوٹلوں میں کھانا تک نہیں تھا۔ جب مرد، خواتین، بچے تھکن، سفر اور بھوک سے نڈھال ہوں اور نہ ٹھہرنے کی جگہ ملے نہ کچھ کھانے کو تو تکلیف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہوٹل نے مہربانی کی کہ لابی میں کچھ گھنٹے ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ 15گھنٹے بعد گھر پہنچے تو جان میں جان آئی۔ اور یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ ہر زبان پر ایک الگ کہانی ہے۔ کراچی میں اُس دن اور اُس رات لوگ 15سے 20گھنٹے پھنسے رہے۔ نہ کوئی امدادی ٹیم سڑکوں پر تھی اور نہ پھنسی ہوئی ٹریفک نکالنے کے لیے پولیس موجود تھی۔ عام شہریوں نے ہی ایک دوسرے کی مدد کی ورنہ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ کراچی دردِ دل رکھنے والوں کا شہر ہے سوائے حکومتوں اور عہدیداروں کے۔
بونیر، سوات اور گلگت بلتستان میں بھی طوفانی بارشیں ہوئیں، جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔ سب کا بہت دکھ ہے لیکن کچھ صبر تو آ جاتا ہے کہ یہ موسمی تبدیلیوں کے شاخسانے ہیں۔ قدرتی آفا ت ہیں جن پر انسان کا کنٹرول نہیں۔ کراچی میں تو چند انسانوں ہی نے کروڑوں انسانوں کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے۔ ایک عہدیدار نے کس شان سے فرمایا کہ یہ غیر معمولی بارش تھی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ۔ کون سی غیر معمولی بارش اور کون سی موسمیاتی تبدیلیاں؟ آپ نہیں جانتے تو کراچی کے شہریوں سے پوچھیں، وہ جانتے ہیں کہ ہر چند سال بعد کراچی ایسی ہی بارش کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ ہر چند سال کے بعد یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میئر سے لے کر وزیراعلیٰ تک ہر کوئی، یہ سب قدرت پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ کراچی ڈوب چکا اور آپ ان کے بیانات سنیں، جو عشرو ں سے کراچی کے اور سندھ کے ذمہ دار ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم پر الزام دھرا ہے کہ اس نے نارتھ کراچی میں نالے پر ہزاروں دکانیں بنا دی تھیں۔ اب ایم کیو ایم کے جوابی الزام کا انتظار کیجیے۔ ایک صوبائی وزیر نے وفاقی حکومت کو تلقین کی ہے کہ وہ کراچی کا خیال کرے، جو 70فیصد پیسہ دیتا ہے۔ الزام، جوابی الزام، ہدایات، تلقین، سیاسی لڑائیاں اور وعدے۔ کراچی کے لوگوں کا مقدر بس یہی ہے کہ یہی کچھ سنتے رہیں، پڑھتے رہیں اور ڈوبتے رہیں۔
ملک کے مظلو م ترین شہر کا نام لیں تو وہ ہے کراچی! کون سا ظلم ایسا ہے جس سے یہ نہ گزرا ہو اور نہ گزرتا ہو۔ لوٹ مار، ڈاکے، چوریاں، بھتہ خوری، قتل، بدامنی، گینگ وار، ٹینکر مافیا، بند سیوریج، اُبلتے گٹر، فضائی آلودگی، خوار کرنے والا ٹریفک نظام، بدترین سڑکیں، تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ، رشوت خور ادارے، کوڑے کے ڈھیر بنے پارک اور آسمان کو چھوتی زمین کی قیمتیں۔ کسی اور شہر میں یہ حالات دو چار سال بھی رہتے تو غضب ناک شہریوں سے بدعنوان حکمران محفوظ نہ رہتے۔ پیپلز پارٹی عشروں سے حکومت میں ہے اور ایم کیو ایم بھی۔ لیکن بربادی کے ذمہ دار دونوں نہیں، قدرت ذمہ دار ہے یا وفاقی حکومت۔ لوگ کیا کریں اور کہاں جائیں؟ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی کوشش کریں تو ووٹ صندوق میں ڈالنا اور نالی میں ڈالنا ایک برابر ہو چکا۔ ویسے یہ سب گروہ آپس میں لڑتے رہیں گے، شہر پر ظلم کرتے رہیں گے اور شہر کی مظلومیت کا رونا روتے رہیں گے۔ نسلیں اسی امید میں گزر چکیں کہ شاید کبھی یہ پیر تسمہ پا جان چھوڑ دیں لیکن وہی ان کی ٹانگوں کی قینچی ہے اور وہی کراچی کی گردن۔ نسلیں پیدا ہوتی اور مرتی رہیں گی۔ شہر مرتا رہے گا۔ مگر ان کا تسلط برقرار رہے گا۔
نااہل وفاقی اور صوبائی حکومتیں کوئی ادارہ یا شعبہ نہ چلا سکیں تو آخر میں یہی کرتی ہیں کہ اسے بیچ دو اور اپنی گردن سے ذمہ داری اتار دو۔ پی آئی اے، ریلوے، ٹیلی کام، بجلی، سٹیل مل، پبلک ٹرانسپورٹ، سب کا آخری انجام یہی ہوتا ہے کہ انہیں بیچ دو، لیکن لوگوں سے ٹیکس لیتے رہو۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ کراچی کو بھی پرائیویٹائز کر دیں۔ اسے کراچی کے شہریوں کے ہاتھ بیچ دیں، وہ آپ سے بہت بہتر چلا لیں گے۔ اسے کراچی والوں کے ہاتھ میں دے دیں۔ جن موسمیاتی تبدیلیوں کا رونا آپ رو رہے ہیں، وہ شہر والے بھگت لیں گے۔ آپ کو تو صر ف پیسوں کی فکر ہوتی ہے۔ پیسے کی فکر نہ کریں، پیسہ آپ کو ملتا رہے گا۔ یہ شہر 70فیصد ٹیکس تو اب بھی آپ کی جیبوں میں ڈالتا ہے، اور بھی ڈال دے گا۔