دریاؤں کے کنارے آباد تہذیبیں ہمیشہ پانی کو نعمت سمجھتی ہیں مگر جب بادل ایک دم برس پڑے اور آسمان یوں کھل کر دھرتی پر ٹوٹ پڑے تو اسے کلاؤڈ برسٹ کہتے ہیں، جو گھروں کی چھتیں اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ سڑکیں بہہ کر دریا برد ہو جاتی ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں اتنی زیادہ بارشیں ہوئیں کہ ندی نالے بپھر گئے۔ دریائے ہنزہ نے اپنا رخ ہی بدل لیا۔ زمین پھٹ رہی تھی کہ اس میں پل سما رہے تھے۔ پنجاب میں الرٹ جاری کردیا گیا ہے جو اس مرتبہ زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ پانچ دریاؤں کی سرزمین کے کنارے آباد بستیاں سانس روکے بیٹھی ہیں کہ بارش کے ساتھ ہندوستان کی شرارت کا سیلابی ریلا گاؤں، دیہات اور قصبے کو بہا کر نہ لے جائے۔
یہ سب کچھ کوئی موسمی حادثہ نہیں بلکہ اس کا تعلق عالمی موسمیاتی تبدیلی سے ہے۔ عالمی سطح پر قدرتی آفات سے انشورنس کمپنیوں کو 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ پاکستان کی زراعت موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوئی۔ گندم اور کپاس کی پیداوار گھٹ کر رہ گئی۔ مئی جون میں ہیٹ ویوز سے مزدوروں کی صلاحیت کم ہو کر رہ گئی۔ یورپ میں گرمی نے اناج کو جھلسا کر رکھ دیا۔ افریقہ میں شدید بارشوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا۔
پاکستان کے پاس اس موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے وسائل بھی نہیں ہیں نہ ہی معیشت مضبوط ہے۔ اگر ہم آج گرین انرجی، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت اور شہروں کی جدید طرز پر منصوبہ بندی پر سرمایہ کاری کرلیں تو ٹھیک ورنہ پانی رحمت کے بجائے زحمت بن کر آئے گا۔ اگرچہ پاکستان میں ہر مشکل گھڑی کے وقت مقامی افراد اپنے ہی شہر اور گاؤں کے لوگوں کی امداد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں چکوال میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تو فوراً ہی امداد کے لیے بہت سے افراد نے اپنے دن رات کو ایک کردیا اور رات کی تاریکی میں بھی گلی محلوں میں سینے تک آئے ہوئے پانی میں اتر گئے۔ ان میں تحسین شاہ، امجد کاظمی، عمر فاروق، اکبر بادشاہ، منیرافضل کے ناموں کا سوشل میڈیا میں شہرہ رہا۔ پاکستان کو اب سیکھنا ہوگا کہ کس طرح اس موسم میں مدد کرنے والے افراد کو فوری طور پر بارش کے نتیجے میں گلیوں، محلوں اور سڑکوں میں بہتے ہوئے دریاؤں میں کیسے اترنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر پاکستان میں سوائے چند اداروں کے کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ البتہ کلائمیٹ چینج اکیڈمی کے سربراہ مجتبیٰ بیگ اور ان کی پوری ٹیم اس سلسلے میں برسرِ پیکار ہے۔ پاکستان میں 2022ء میں سندھ میں آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے رقوم کی کمی کے ساتھ امداد کرنے والے افراد کی تربیت کی زبردست کمی دکھائی دی، جس کے باعث سانپ کاٹنے کے سینکڑوں واقعات سے امدادی کام کرنے والے بھی متاثر ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئے۔ شاید کبھی یہ بات سچ ہوتی لیکن اب صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان اب سرفہرست آچکا ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی پر کسی قسم کی عالمی سرمایہ کاری کسی بھی سطح پر نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کو اب بہت کچھ سیکھنا ہوگا، کیونکہ انسان فطرت کے ساتھ لڑ نہیں سکتا بلکہ اس کے ساتھ چلنا سیکھ سکتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ پاکستان کو یہ سیکھنا ہے کہ کس طرح بارشوں کے نوحے کو ترقی کے ترانے میں بدل لیا جائے۔ اس کے لیے معیشت اور عوامی شعور کو ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ورنہ ہنزہ کے بدلتے دریا اور خیبرپختونخوا کی بستیوں کا صفایا، پلوں کا بہہ جانا محض خبر نہیں ہے بلکہ مستقبل کا ایسا شیشہ ہے جو ہمیں بہت کچھ دکھا رہا ہے لیکن ہم نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
پاکستانی قوم اس وقت آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے مصیبت زدہ سیلاب متاثرین کے لیے کھڑی ہوجائے، جہاں قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی ہے۔ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پیر بابا قصبے میں کفن کم پڑ گئے۔ سینکڑوں افراد پانی میں بہہ کر گم ہوگئے جن کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسم نے جو تیور بدلے ہیں اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں، یہ سب صنعتی ممالک کا کیا دھرا ہے۔ پاکستان اس بات کا خوب چرچا کرے کہ کس طرح ترقی یافتہ ممالک کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے ہماری زندگی تاریک کر دی ہے۔ پاکستان کا بیشتر حصہ اجڑ کر رہ گیا ہے۔ کلائمیٹ چینج کے نام پر سینکڑوں ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری درکار ہوگی، پھر کہیں جا کر عالمی موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کو تھوڑا بہت کم کیا جا سکے گا۔