مساجد کا تحفظ۔ اسلامی ریاست کی اصل پہچان

قرآن کریم نے جہاں مساجد کو آباد کرنے والوں کے ایمان اور تقویٰ کی تعریف بڑے حسین انداز میں بیان کی ہے، وہیں ان لوگوں کے لیے بھی سخت وعید سنائی ہے جو بلاشرعی وجہ مساجد کو گراتے یا نمازیوں کو ان میں آنے سے روکتے ہیں۔ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب۔ یہ انجام ان لوگوں کا مقدر قرار دیا گیا ہے جو اللہ کے گھر کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں جب بھی کسی خطے میں مسلمان حکمرانوں نے اقتدار سنبھالا، مسجد کو ہمیشہ اولین ترجیح حاصل رہی۔ ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام مسجد کی تعمیر کو بنایا۔ مسجدِ قباوہی پہلی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا: ”وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے، وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔” (التوبہ: 108) یہی روایت خلافتِ راشدہ اور قرونِ اولی میں قائم رہی۔

عہدِ نبوی میں مسجد محض نماز پڑھنے کا مقام نہیں تھی، بلکہ ایک ہمہ گیر مرکز تھی۔ وہاں اجلاس ہوتے، وفود کو خوش آمدید کہا جاتا، تعلیم و تربیت کے حلقے منعقد ہوتے، تبلیغی مہمات روانہ کی جاتیں اور امن و جنگ کے بڑے فیصلے بھی وہیں ہوتے۔ سفر سے واپسی پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے مسجد میں حاضر ہوتے۔ وقت کے ساتھ معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی آئی اور کئی ذمہ داریاں مختلف اداروں میں منتقل ہوگئیں، لیکن مسجد کا بنیادی کردار آج بھی باقی ہے۔ نماز، تعلیم، تربیت، اصلاح اور معاشرتی رہنمائی۔ یہ سب مسجد کے بنیادی ستون ہیں جو آج بھی لاکھوں دلوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ کیا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جب مسجد کی تعمیر اور خدمت کو عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں اولین حیثیت دی گئی، تو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں مساجد کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ بدقسمتی سے مختلف ادوار میں حکومتیں مساجد کے انہدام کی مرتکب ہوئیں۔ کبھی سڑک کشادہ کرنے کے نام پر، کبھی منصوبہ بندی کے بہانے۔ حالانکہ مسجد کو گرانا اسلامی ریاست کی نہیں بلکہ دشمنانِ اسلام کی روش ہے۔ ایک تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ بعض اوقات مذہبی طبقے کے کچھ حلقوں کے جذباتی اور غیر متوازن رویے حکومت کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیںاور حکومت ردِعمل میں ایسے اقدامات کر بیٹھتی ہے جو نہ صرف نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ مساجد کی حرمت کے مجرم بھی ہمیں بنا دیتے ہیں۔ عقل سے عاری جنونی اخلاص خواہ کیسا بھی ہو، بربادی لاتا ہے۔ اس لیے مذہبی طبقے کو چاہیے کہ اپنے مطالبات کو حکمت، صبر اور اعتدال کے ساتھ پیش کرے تاکہ نہ دین کی عظمت کو کوئی دھبہ لگے اور نہ مساجد کے مینار زمیں بوس ہوں۔

بحمداللہ پاکستان میں اہلِ خیر اور عام شہری اب بھی مساجد کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ قرآن حفظ کرنے کی کلاسیں، علمی و دینی حلقے، وعظ و نصیحت، تربیتی لیکچرز، سیمینارز، لائبریریاں اور تربیتی کورسز۔ یہ سب مساجد میں جاری بھی ہیں اور کافی بھی۔ ان سرگرمیوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور اعلی انتظامی صلاحیت کی ضرورت تو ہے، حدود سے تجاوز کرنے کی مگر نہیں۔ اس کے لیے علمائ، ائمہ، خطباء اور مؤذنین کو اپنی ذمہ داریوں کی حدود پہچاننے کی ضرورت ہے تاکہ مسجد کا کردار اپنی اصل روح میں زندہ ہو سکے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں عبادت گاہوں کو گرانے کی بجائے انہیں محفوظ اور فعال بنایا جاتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف مذہبی ضرورت ہوتی ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور قومی تشخص کا بھی اہم حصہ ہوتی ہیں۔ قدرتی حسن کو بھی مساجد بڑھاتی ہیں گھٹاتی نہیں۔ یہی مثال آج ہمیں متحدہ عرب امارات میں نظر آتی ہے۔ یہاں حکومت نے مساجد کو محض عبادت گاہ کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ انہیں دینی، سماجی اور ثقافتی مراکز کی حیثیت دی ہے۔ یہاں امارات میں شارجہ کے حکمران کا یہ قول بڑا مشہور ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر چوک پر مسجد ہو تاکہ لوگوں کے پاس نماز چھوڑنے کا کوئی عذر یا بہانہ باقی نہ رہے۔ واقعی ہے بھی ایسا کہ شارجہ میں ہر چوک پر مسجد موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی سڑک ہو جہاں مسجد نہ ہو۔ ایک جگہ تو ایک ہی چوک پر چاروں خلفاء کے نام پر چار مسجدیں بنی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے چھوٹے چھوٹے قصبوں تک میں حکومت نے یہ اہتمام کیا ہے کہ عبادت گزاروں کو ایک صاف ستھرا، پرامن اور خوشگوار ماحول میسر ہو۔ یہاں مساجد کے ذریعے امن، رواداری اور بقائے باہمی کا پیغام عام کیا جاتا ہے، جو متحدہ عرب امارات کی معاشرت کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امارات میں مسجد معاشرتی اور روحانی ترقی کا ایک ستون سمجھی جاتی ہے۔ یہ ماڈل ہمارے لیے بھی سبق آموز ہے۔ اگر پاکستان میں بھی حکومت مساجد کو صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، اصلاح، سماجی ہم آہنگی اور دینی رہنمائی کے مراکز کے طور پر اپنائے اور توجہ دے، تو یہ نہ صرف عوام کے مذہبی جذبات کی تسکین کا باعث ہوگا بلکہ یہ عمل قومی یکجہتی اور حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔

مسجد کا وجود صرف اینٹ، پتھر اور سیمنٹ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایمان کی حرارت اور اجتماعی شعور پروان چڑھتا ہے۔ یہاں اللہ کی وحدانیت کا اعلان ہوتا ہے، معاشرتی مساوات کا سبق دیا جاتا ہے، اور فرد کو اس کے اصل مقصدِ حیات سے جوڑا جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی مساجد کی تعمیر کو قومی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ موجودہ مساجد کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ تعلیم و تربیت کا موثر مرکز بن سکیں۔ مساجد کے نظم و نسق کو علمائ، طلبہ اور معتبر شہریوں کی نگرانی میں مضبوط اور شفاف بنایا جائے۔ مساجد کو رواداری، اصلاحِ معاشرہ اور قومی ہم آہنگی کا حقیقی پیغامبر بنایا جائے۔ یہ اقدامات پاکستان کو محض اسلامی جمہوریہ کے نام سے حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست میں ڈھال سکتے ہیں۔