دنیا کے اُفق پر دوسری ”عرب سپرنگ“ کے سائے پھیلنے لگے

رپورٹ: علی ہلال
عرب دنیا میں ایک مرتبہ پھر عوامی بغاوتی تحریک کا خطرہ درپیش ہے۔ 23 ماہ سے غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں جاری قتل عام، نسل کشی اور بدترین محاصرے نے عرب عوام میں غیض وغضب کی چنگاریاں بھر دی ہیں۔ بالخصوص عرب حکمرانوں کی مکمل خاموشی اور لاتعلقی نے عوامی اشتعال اور انتقامی جذبے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
2011ء میں شروع ہونے والے یاسمین انقلاب کے ہوم ٹاون تیونس کے عوام اور سیاستدانوں نے ایک مرتبہ پھر عرب اسپرنگ طرز کی تحریک کا اشارہ دے دیا ہے۔ جمعہ کو منعقدہ عرب اقوام کی سربراہ کانفرنس کے عنوان سے منعقدہ سمٹ میں اس انتقامی تحریک کے بارے میں بات کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق لندن میں 15 اگست کو منعقدہ عرب عوامی کانفرنس میں مختلف عرب ممالک کے دانشوروں، سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور محاصرے کے خلاف عوامی آواز کو مضبوط بنانا تھا جس میں اب تک 63 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں تقریباً 19 ہزار بچے شامل ہیں۔
کانفرنس کے شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ عرب حکومتوں کی خاموشی کے مقابلے میں عوامی یکجہتی اور تحرک ہی فلسطینی عوام کی اصل طاقت بن سکتا ہے۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی استقامت پورے خطے کے لیے آزادی اور کرامت کا پیغام ہے جو عرب بہار کی اقدار کی یاد دلاتا ہے۔ تیونس کے سابق صدر ڈاکٹر منصف المرزوقی نے کہا کہ ’خوشی اس وقت حقیقی ہوگی جب غزہ آزاد ہوگا اور فلسطینی، سوڈانی اور شامی عوام کی اذیت کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے ایک نئی پُرامن عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا تاکہ خطے کی اقوام اپنی آزادی اور عزت واپس حاصل کر سکیں۔مصری اپوزیشن رہنما ڈاکٹر ایمن نور نے غزہ کے بچوں کے حوصلے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ بچے کھیل کے میدان میں نہیں بلکہ سنائپرز کی گولیوں اور بمباری کا سامنا کر رہے ہیں۔ پھر بھی وہ خواب اور مسکراہٹ کے ذریعے مزاحمت کر رہے ہیں۔انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فلسطینی بچوں کو دہشت گرد نہیں بلکہ مظلوم کے طور پر تسلیم کرے۔
حماس کے نمائندے احمد عبدالہادی نے کہا کہ فلسطینی عوام نے محدود وسائل کے باوجود بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انہوں نے عرب و اسلامی اقوام اور دنیا کے آزاد لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ’نسل کشی اور بھوک کی اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور فلسطین کی مزاحمت کی حمایت کریں‘۔مراکش کے سابق وزیراعظم سعد الدین العثمانی نے زور دیا کہ سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ عوامی اور سرکاری سطح پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا جائے اور مزاحمت کی تمام صفوں کو یکجا کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ آج کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ہمارے بھائیوں پر غزہ میں جاری مسلسل اور خوفناک بھوک مٹائی جائے، سخت محاصرہ ختم کیا جائے اور تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اتحاد قائم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تمام اختلافات سے پہلے اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔یمنی مصنف عصام القیسی نے بعض عرب حکومتوں کی اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کئی مہینوں سے جاری ہے اور نہ کوئی عالمی طاقت اور نہ ہی عرب دنیا اس کو روک سکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر عوام اپنی صلاحیتوں اور قوت پر ایمان لے آئیں اور خوف کی کیفیت کو توڑ دیں تو وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ محاصرہ ختم کرنے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ سب کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے زور دیا کہ اقتصادی بائیکاٹ اور عوامی تحریکیں فلسطینیوں کی حمایت کے موثر ہتھیار ہیں جو حقیقی اثر ڈال سکتی ہیں۔کانفرنس کے شرکا نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ عرب عوام کسی بھی شکل میں نسل کشی، محاصرہ اور بھوک کو مسترد کرتے ہیں اور انہیں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہیں۔اقوام متحدہ میں ’اتحاد برائے امن‘ (Uniting for Peace) کی شق کو فعال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ سلامتی کونسل کی ناکامی سے بچتے ہوئے فلسطینی عوام کی حفاظت کے لیے عالمی اقدام اٹھایا جاسکے۔ بین الاقوامی مبصرین کی تعیناتی اور انسانی امداد کے لیے محفوظ راستہ کھولنے پر زور دیا گیا۔فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پر اصرار، قبضے کا خاتمہ، محاصرہ ختم کرنا، واپسی کا حق اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام جس کی دارالحکومت القدس ہو۔فلسطینی کاز کو ختم کرنے کی سازشوں سے خبردار کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ عرب عوامی یکجہتی ہی آخری دفاعی دیوار ہے۔ اسرائیل کے حامی ممالک کے خلاف مکمل عوامی تحریک اور اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔
اختتام پر اس بات پر زور دیا گیا کہ غزہ اور فلسطین کی حمایت صرف حکومتوں پر نہیں چھوڑی جا سکتی بلکہ ایک وسیع عرب عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ فلسطینی عوام کی ثابت قدمی تمام اقوام کے لیے ایک تحریک اور الہام ہے۔ یہ کانفرنس دراصل ایک متحدہ عرب صدا تھی جو عوام کی جانب سے اٹھی، حکومتوں سے پہلے اور جس نے پُرامن مزاحمت، انسانی یکجہتی اور عزت و انصاف کی بحالی کا پیغام دیا۔خیال رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے امریکی حمایت کے ساتھ غزہ میں نسل کشی شروع کی جس میں قتل عام، بھوک، تباہی اور جبری نقل مکانی شامل ہیں اور اس نے تمام عالمی اپیلوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو نظر انداز کیا ہے۔ اس نسل کشی کے نتیجے میں اب تک 61,776 فلسطینی شہید، 154,906 زخمی ہوئے جن میں اکثریت عورتیں اور بچے ہیں۔ اس کے علاوہ 9 ہزار سے زائد افراد لاپتہ، لاکھوں بے گھر اور 239 افراد (جن میں 106 بچے شامل ہیں) بھوک سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔