ابوالعجائب!

” عَجَائِب”عجیب کی جمع ہے ،اسے عربی میں عَجِیْبَة،اُعْجُوبَة اور عُجاب بھی کہتے ہیں، انگریزی میں اسے Miracle کہتے ہیں ،اس کے معنی معجزہ بھی کیا گیا ہے ، لیکن اردو اور انگریزی وغیرہ میں عقل کودنگ کرنے والی ہر بات کو معجزہ کہہ دیتے ہیں ،حالانکہ معجزہ اسلام کی ایک خاص اصطلاح ہے اوریہ خاصّہ نُبوت ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں عام طور پر بے قصور افراد کو معصوم کہہ دیا جاتا ہے ،حالانکہ عصمت خاصّۂ نبوت ہے اوریہ صرف نبی کیلئے خاص ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی ایک ”اُعْجُوْبَة” ہیں،بلکہ ابوالعجائب ہیں۔وہ ناقابلِ پیش گوئی تو ہمیشہ سے تھے، لیکن اب اُن سے مزید حیرت انگیز باتوں کا صدور ہورہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو امن کے پیامبر کے طور پر منوانا چاہتے ہیں، سو وہ نہایت شدت کے ساتھ نوبیل امن انعام کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ اسی لیے انھوں نے حالیہ پاک بھارت جنگ بند کرانے کا کریڈٹ لیااوردرجنوں بار اس کا ذکر کرچکے ہیں۔ پاکستان نے تواسے فوراًتسلیم کرلیا ،مگر بھارتی وزیر اعظم مودی تاحال اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، وہ اسے اپنی سبکی اور اہانت سمجھتے ہیںکہ انھوں نے ٹرمپ سے جنگ بندی کیلئے رابطہ کیا۔ مزید یہ کہ ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا، نیز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں بھی صلح کرادی ہے اور ان دونوںتنازعات کے سب فریقوں نے اس کا اعتراف کرکے ٹرمپ کو” نوبیل امن انعام” دینے کی سفارش بھی کردی ہے، اب وہ نہایت شدت کے ساتھ روس اور یوکرین کا مسئلہ بھی حل کرانا چاہتے ہیں تاکہ ”نوبیل امن انعام” کیلئے ان کا استحقاق مزید بڑھ جائے۔

”عدُوّ شرّے برانگیزد کہ خیرِ ما دراں باشد” کے مصداق پاکستان کو اس کا فائدہ پہنچا اور ٹرمپ نے تمام تر روایات کے برعکس فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کووائٹ ہائوس میں ظہرانے کی دعوت دے کران کے ساتھ دوگھنٹے کی نشست کی۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس ملاقات میں کن موضوعات پر بات ہوئی اور ان میں پاکستان کے لیے خیر کی کون سی صورت برآمد ہوئی۔ اب دوسری باروہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی تبدیلی کی تقریب میں شرکت کے لیے امریکا اور اس کے بعد لگسمبرگ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ سینٹ کام کے سابق سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا امریکی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں پاکستان کا ذکر اچھے انداز میں کرچکے تھے ،اس موقع پر فیلڈ مارشل کی سینٹ کام کے نئے سربراہ ایڈمرل بریڈ کُوپرکے ساتھ بھی ابتدائی تعارفی ملاقات ہوچکی ہے اورانھوں نے ایڈمرل کُوپر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دے دی ہے، یہ اچھا آغاز ہے۔پاکستان کے ساتھ امریکا کا درآمدی اور برآمدی محصولات کا معاملہ بھی طے ہوچکا ہے اور امریکا میں پاکستانی درآمدات پر ٹیکس کی شرح 19فیصد مقرر کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ بھارت پر دبائو ڈال رہا ہے، وہ اس کی معیشت کو مردہ قرار دے چکا ہے اور سرِ دست بھارتی درآمدات پر ٹیرف پچاس فیصد کردیا ہے۔ وقتی طور پر تو پاکستان کیلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ کافی عرصے کے بعد امریکا کا رویہ پاکستان کے بارے میں مثبت ہے اور توقعات سے بڑھ کر ہے ، لیکن اہلِ نظر کو اندیشہ ہے کہ یہ رویہ عارضی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کے سیماب صفت مزاج کو دیکھتے ہوئے اس کے دیرپا ہونے کے امکانات کم ہیں، کیونکہ اب پاکستان کے ساتھ امریکا کے زیادہ مفادات وابستہ نہیں ہیں تاوقتیکہ کوئی نئی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔درحقیقت اب افغانستان میں امریکا کی دلچسپی کم ہے اور ٹرمپ کا رویہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ الغرض امریکا کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں اطمینان کا سبب تو ہیں،لیکن ان پر دھمال ڈالنے اور جشن منانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

صدرٹرمپ کا اصل مسئلہ یوکرین کی جنگ بند ی ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ ہمالیہ سرکرنا اُن کے لیے آسان ہوگااور صدر پیوٹن بآسانی راضی ہوجائیں گے، اسی سبب انھوں نے صدر زیلنسکی کی وائٹ ہائوس میں بے عزتی بھی کی تھی مگراُن کی توقع کے برعکس پیوٹن آسان ثابت نہیں ہوئے ، اس لیے ٹرمپ نے انھیں دبائو میں لانے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھایا کہ وہ روس سے پٹرول کی خریداری کا معاہدہ منسوخ کرے۔ بھارت اپنی ضرورت کاتقریباً 40فیصد پٹرول روس سے درآمد کرتا ہے اورروسی درآمدی پٹرول کو ریفائن کر کے یورپی ممالک کو برآمدکرکے 120ارب ڈالر تک کا کاروباربھی کرتا ہے، کیونکہ روسی پٹرول اس کو ایک تہائی کم داموں میں ملتا ہے، روس پر عائد موجودہ تجارتی پابندیوں کے سبب یہ اُس کی معیشت کے لیے ایک اچھا سہارا ہے ۔پس ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بھارت روس سے پٹرول خریدنا چھوڑ دے تاکہ اس پر معاشی دبائو پڑے اور وہ یوکرین سے جنگ بندی پر راضی ہوجائے۔

اس کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ بھارت دو کشتیوں کا سوار ہے، ایک طرف چین مخالف اتحاد ”کواڈ(آسٹریلیا، انڈیا، جاپان اور امریکا)” کا رکن ہے اور دوسری طرف امریکا مخالف اتحاد ”برکس (برازیل، روس، انڈیا، چین، جنوبی افریقا)” کا رکن ہے۔برکس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے متبادل کرنسی متعارف کرانا ہے تاکہ عالمی پالیسیوں پر امریکا کی اجارہ داری اور اثرات کم ہوں۔ متبادل کرنسی رائج ہونے کی صورت میں ڈالر کی شرحِ تبادلہ کمزور ہوگی اور یہ دنیا پر امریکی تسلّط کی کمزوری کا سبب بنے گی۔بظاہر عالمی تجارت کے لیے متبادل کرنسی چین کا ”یوآن” ہی قرار پائے گا، کیونکہ روس بہت کمزور ہوچکا ہے ،پس امریکا چاہتا ہے کہ بھارت یکسو ہوکر امریکی کیمپ میں آجائے۔

ماہرین کا خیال ہے انجامِ کار بھارت امریکا کے کیمپ میں جائے گا،کیونکہ سرحدی تنازع کے سبب اُس کی چین کے ساتھ پائدار دوستی قائم نہیں ہو سکتی۔ امریکا کے ساتھ اس کی تجارت کی مقدار بھی زیادہ ہے اور توازن بھی بھارت کے حق میں ہے ،جبکہ چین کے ساتھ تجارت میں توازن چین کے حق میں ہے، نیز بھارت کو امریکا سے جدید ترین اسلحہ بھی چاہیے۔ امریکا اور اہلِ مغرب بھارت کی نازبرداری اس لیے کر رہے تھے کہ اسے چین کے خلاف ایک متوازی جارح قوت کے طور پر استعمال کرسکیں، مگر حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُس کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی نے اس پر اہلِ مغرب کے اعتماد کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے،اب بھارت دوبارہ اس اعتماد کی بحالی کے لیے کوشاں ہے، چنانچہ وہ انتہائی تیز رفتاری سے جدید ترین مہلک اسلحہ جمع کرنے میں مصروف ہے اور خطرہ ہے کہ وہ ایک بار پھر پاکستان پر حملہ کرکے دنیا پر اپنی جارحانہ قوت کی دھاک بٹھانا چاہے گا۔

سرِدست بھارت نے جوابی دبائو کی حکمتِ عملی بھی اختیار کی ہے، مودی شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کرنے جارہا ہے اوربھارت نے امریکا سے اسلحے کی خریداری کے معاہدے پروقتی طور پرعمل درآمد بھی موقوف کردیا ہے۔ 15اگست کو امریکی صدر ٹرمپ کی روسی صدر پیوٹن سے الاسکا میں ملاقات طے پائی ہے، مگر معاملات کا طے ہونا بظاہر آسان نہیں، کیونکہ روس چاہتا ہے کہ کریمیاسمیت یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر اس کی حاکمیت کو تسلیم کرلیا جائے، یوکرین غیرمسلّح ہوکر بفراسٹیٹ کے طور پر رہے اور نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کردے۔ الغرض بھارت کی امریکا کے ساتھ تعلقات کی جلدبحالی روس یوکرین جنگ بندی کے معاہدے پر موقوف ہے، کیونکہ بھارت چین کے مقابلے میں امریکا کا اسٹریٹیجک شراکت دار ہے اور بالآخروہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا اوردونوں کے تعلقات بحال ہوجائیں گے ۔

اس کے مقابلے میں پاکستان چین کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے ، کیونکہ دونوں کے بھارت کے ساتھ قدیم تنازعات ہیں۔ پاکستان کا تنازع مقبوضہ جموں و کشمیر اور چین کا اروناچل پردیش اور تبت سے متعلق ہے اور ان دونوں تنازعات کا حل آسان نہیں مگر چین کی حکمتِ عملی تاحال جنگوں میں الجھنے کی نہیں ہے، کیونکہ وہ سائنس، ٹکنالوجی ، معاشی اورحربی صلاحیت کے اعتبار سے امریکا کے مقابل آنا چاہتا ہے ، یعنی عالمی سطح پر متوازی سپرپاور بننا چاہتا ہے،اس لیے وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے اوردونوں ممالک کے درمیان تجارت کا توازن بھی چین کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس بھارت علاقائی ڈان اور منی سپرپاور بننا چاہتا ہے،جبکہ پاکستان یہ حیثیت حاصل کرنے میں اُس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور حالیہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں بھارت کی علاقائی منی سپرپاور کے زعم کو بہت دھچکا لگا ہے،وہ پیچ وتاب کھارہا ہے اور جدید ترین اسلحہ جمع کرنے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے ۔ (جاری ہے)