مہنگی چینی، کڑوا ذائقہ

جدید دور میں میٹھا حاصل کرنے کا سب سے آسان ذریعہ چینی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ میٹھی شے کھانے کے بعد مزاج خوشگوار اور توانا ہو جاتا ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ چینی کے حصول کے وقت پاکستانیوں کا مزاج انتہائی بدمزہ، چڑچڑا اور کڑوا ہو جاتا ہے؟ یقینی طور پر اس کی وجہ مہنگی چینی ہے، خریدنے کے بعد چینی کا ذائقہ بھی کڑوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا کوئی دور نہیں گزرا جب پاکستان میں چینی کا بحران پیدا نہ ہوا ہو۔ طلب و رسد میں عدم توازن کی بدولت چینی کی قیمتیں عام پاکستانی کی پہنچ سے دُور ہو جاتی ہیں۔ طلب و رسد میں عدم توازن کیسے اور کیوں پیدا ہوتا یا پیدا کیا جاتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور بولا گیا۔ پاکستانیوں نے ایسے کئی ادوار دیکھے ہیں جب یہ میٹھی شے حکومت کے مقرر کردہ راشن ڈپوؤں سے راشن کارڈ یا حکومت کی جانب سے سستے چینی کے ٹرکوں پر شناختی کارڈ تھامے عوام کی لمبی لمبی قطاروں یا سستے رمضان بازاروں کے ذریعہ حاصل کی جاتی رہی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں چینی کے حصول کے لئے گنا کی فصل عدم دستیاب یا طلب کے مقابلے میں کم پیدا ہوتی ہے؟ اس کا بہت ہی سادہ سا جواب ہے کہ نہیں۔ پاکستان میں گنے کی پیداوار پاکستانی شوگر انڈسٹری کا پیٹ بھرنے کے لئے نہ صرف کافی ہے بلکہ وافر مقدار اور طلب سے زیادہ دستیاب رہتی ہے۔ گنے کا شمار گندم، چاول، کپاس ایسی پاکستانی نقد آور فصلوں میں کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طور پر کیا جاتا ہے جہاں پوری دنیا کا تقریباً پانچ فیصد گنا پیدا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی قوم چینی جیسی روزمرہ کی عام شے خریدتے وقت مہنگی چینی کے ذمہ دران کو بددعائیں اور گالیاں دے رہی ہوتی ہے۔

پاکستان میں چینی مافیا کی اصطلاح زبان زد عام ہو چکی ہے۔ چینی مافیا کون ہیں اور کس طرح اس پورے نظام میں باریک واردات ڈالتے ہیں؟ اور پاکستان میں چینی کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہو پاتیں؟ آئیے ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ”چینی مافیا” یہ مافیا طاقتور صنعتی، سیاسی اور جاگیردار گروہ پر مشتمل ہے۔ تحقیقاتی رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی تقریباً 80سے زائد شوگر ملز میں سے زیادہ ترکی ملکیت سیاسی اور بااثر خاندانوں اور لوگوں کے پاس ہے۔ یہ گروہ حکومتی پالیسی پر اثرانداز ہو کر سرکاری احکامات کے ذریعہ اپنی منافع بخش حکمت عملی کو نافذ کرواتا ہے۔ ان افراد کا تعلق پاکستان کی تمام حکومتی و اپوزیشن سیاسی جماعتو ں سے ہے۔ ان کے باہمی سیاسی و نظریات مختلف ہو سکتے ہیں، چاہے یہ حکومتی بینچوں پر براجمان ہوں یا پھر اپوزیشن بینچوں پر، مگر چینی کے حوالہ سے ان کی پس پردہ پالیسی ہمیشہ ہی سے ایک ہی ہوتی ہے۔

غیر شفاف پالیسیاں: چونکہ چینی مافیا طاقت اور پالیسی سازی کے ایوانوں میں براجمان رہتا ہے۔ لہٰذا انتظامی اُمور اور غیر شفاف پالیسیوں کی بدولت، کرشنگ سیزن میں تاخیر، گنے کی سپورٹ قیمت کا دیر سے اعلان کرنا اور گنے کی قیمتوں کا غیر شفاف تعین عوام اور کسانوں کو نقصان پہنچانے کے اسباب ہیں، جبکہ مل مالکان ہر حال میں فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کردار: یہ ایسوسی ایشن صرف اور صرف مل مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بڑے بڑے شوگر ملز مالکان کارٹل بنا کر قیمتوں کو کنٹرول کرنے، اسٹاک چھپانے اور برآمدات کو منظم کرنے جیسی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ جس کی بدولت ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔

قانونی رکاوٹیں اور انصاف میں تاخیر: ماضی میں مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی کارٹل کے خلاف کارروائیوں کو عدالتوں میں روک دیا گیا یا تاخیر کا شکار کیا گیا، جس نے قیمتوں کو قابو میں لانے کو مزید مشکل بنا دیا۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی انفورسمنٹ کی کوششوں میں بڑی حد تک عدالتی کارروائیوں میں تاخیر کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، مسابقتی اپیل ٹریبونل تقریباً 7.5سال تک غیر فعال رہا، جس کی وجہ سے 567غیر حل شدہ مقدمات جمع ہوئے۔ مزید برآں، کارٹیلائزیشن سے متعلق 127مقدمات سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ میں اور مسابقتی اپیلٹ ٹربیونل میں عرصہ دراز سے زیر التواء ہیں۔ ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت میں مسابقتی اپیل ٹریبونل فعال کیا ہے۔ مگر کیا ٹریبونل صحیح معنوں میں اپنا کام جاری رکھ پائے گا یا نہیں؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت: شوگر مل مالکان کرشنگ کے بعد چینی کو ذخیرہ کر کے مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تاکہ قیمت بڑھا کر منافع حاصل کیا جا سکے۔ رمضان جیسے مہینوں میں چینی کی طلب بڑھ جاتی ہے، جبکہ ”شوگر مافیا” قیمتیں بڑھانے کے لیے جعل سازی اور ذخیرہ اندوزی کا سہارا لیتا ہے۔

برآمد اور درآمد: حکومتیں اکثر چینی برآمد کی اجازت دیتی ہے، اس دوران مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہو جاتی ہے، پھر چینی کو مزید مہنگے داموں دوبارہ درآمد کرنا پڑتا ہے پالیسیوں کی عدم تسلسل اور کمزور پالیسی فیصلے اور بعد میں ان کا بدلاؤ، یا ان کا ٹھیک سے نافذ نہ ہونا، بازار میں استحکام لانے میں رکاوٹ بنتا ہے، جس کی قیمت پاکستانی عام صارف کو مہنگی چینی خرید کر ادا کرنا پڑتی ہے۔ حال ہی میں مسابقتی کمیشن پاکستان نے وزیرخزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کہ شوگر ایڈوائزی بورڈ نے حکومت کو غلط اعداد وشمار مہیا کر کے چینی برآمد کرنے کا مشورہ دیا، جس کی بنا پر ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا۔ اب شوگر ایڈوئزری بورڈ میں کون براجمان ہیں اور ممبران کن کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا دہائیوں سے نہ ختم ہونے والا بحران کبھی ختم نہیں ہوگا کیوں کہ بحران پیدا کرنے والے خود حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ بھلا کیوں وہ بحران ختم کرنا چاہیں گے جو ان کے لیے بحران نہیں بلکہ کمانے کا ایک موقع ہوتا ہے؟ پاکستانی عوام حکمرانوں کو بُرا بھلا کہتے رہیں گے مگر چینی مافیا کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ اگر چینی کے بحران کا مستقل حل مطلوب ہے تو پاکستان کے عوام کو شوگر مافیا کے احتساب کے لیے موثر آواز بلند کرنا ہوگی اور سیاست دانوں کو شوگر ملیں چلانے اور شوگر ملیں چلانے والوں کو سیاست میں آنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کا پر زور مطالبہ کرنا ہوگا۔