نہ چھپنے والے داغ

بھارتی ایئر چیف امر پریت سنگھ نے پاکستان کے جہاز مار گرانے کا جو بے بنیاد دعویٰ کیا ہے اور جس طرح سیاسی حکم کی تعمیل کی ہے’ وہ انڈین ایئر فورس سمیت تمام فضائی افواج کیلئے ایک سبق ہے۔ سبق یہ ہے کہ جب آپ اپنے پیشہ ورانہ منصب سے ہٹ کر سیاسی لوگوں کے یرغمال بن جائیں تو اپنی وردی پر ایک ایسا بدنما داغ لگا لیتے ہیں جو کسی تمغے’ کسی منصب سے نہیں چھپتا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے بلند ترین منصب پر پہنچ کر پوری ایئر فورس کیلئے شرمندگی کا دائمی نشان بھی چھوڑ جاتے ہیں۔

یہاں سوچ کا ایک اور زاویہ بھی ہویدا ہوتا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں فوج سیاسی بندوبست کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا کرتی ہے اور سیاسی رہنما ان کے مقاصد کے تحت بیانات دیا کرتے ہیں’ ان پر تو بہت بات ہوتی رہی ہے لیکن دوسری طرف جہاں طاقتور سیاسی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کیلئے افواج کو استعمال کرے’ ان پر بات بہت کم ہوتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں فوج کا پیشہ ورانہ کردار’ مہارت اور یکسوئی یقینا بہت متاثر ہوتی ہے۔ ایک میں کسی اور شکل میں’ دوسری میں کسی اور صورت میں۔ بھارت میں ہمیشہ سیاسی بالا دستی رہی ہے اور فوج کبھی برسر اقتدار نہیں رہی۔ لیکن اگر آپ تاریخ دیکھیں تو اب مسلسل کئی عشروں سے بھارتی فوجی سربراہوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی تعیناتی اور ترقی پیشہ ورانہ مہارت کے بجائے سیاسی وابستگی اور وفادار ی کے ساتھ مشروط ہو چکی ہے۔ ایسے وفاداروں کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ایسے ادارے کی سربراہی’ جس کے پیچھے سیاسی جماعت ہو’ اب ایک نئی روایت کے طور پر سامنے آرہی ہے۔

تین ماہ کے مکمل سکوت کے بعد انڈین ایئر فورس کے سربراہ نے جو انکشافات کیے اور جس طرح کیے’ اس پر خود بھارت میں گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے۔ انکشافات میں سب سے حیران کن یہ دعویٰ تھا کہ آپریشن سندور کے دوران بھارت نے ایس 400 میزائلوں سے پاکستان کے چھ طیارے گرائے تھے جن میں پانچ لڑاکا طیارے اور ایک نگرانی کرنے والا بڑا جہاز تھا۔ یہ دعویٰ تین ماہ کی مکمل خاموشی کے بعد بغیر کسی ثبوت کے کیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس دعوے کی فوری تردید بھی کردی اور یہ پیشکش بھی کہ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے طیارے گنتی کیلئے دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہو سکے۔ اس کا بھارت کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ امر پریت سنگھ کے اس دعوے میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں’ یا تو واقعی یہ دعویٰ سچ ہے یا کچھ مقاصد پورے کرنے کیلئے یہ جھوٹ بولا گیا ہے۔ اگر سچ مانیں تو پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر واقعی بھارت نے پاکستان کے چھ طیارے گرائے تھے تو یہ بہت بڑی خبر تھی۔ یہ اْن دنوں اور بعد میں تین مہینوں تک کیوں چھپائی گئی۔ کسی بھی سیاسی حکومت کو اس خبر سے چار چاند لگ سکتے تھے اور ایئر فورس کی ساکھ بہت اوپر جا سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ آج کے زمانے میں جب بے شمار ملکوں کے سیٹلائٹس دنیا کی نگرانی کر رہے ہیں’ یہ کیسے ممکن ہوا کہ کسی بھی سیٹلائٹ کو ان طیاروں کی تباہی کی خبر نہیں مل سکی۔ پھر طیاروں کے ملبے کہاں گرے؟ ان کی فوٹیج اور ملبے کی تصویریں کہاں ہیں؟ آج کے دور میں جب کوئی ڈرون بھی گر جائے تو اس کے شواہد سامنے آجاتے ہیں’ اتنے بڑے طیاروں کے ثبوت کیوں نہیں ہیں؟

ایک بڑا سوال یہ کہ دنیا کے بڑے خبر رساں میڈیا گروپس نے ان تین ماہ میں یہ بات کیوں نہیں بتائی جیسا کہ انہوں نے آپریشن سندور کے دوران ہی بھارتی طیاروں کے گرائے جانے کی خبریں شائع کرنا شروع کردی تھیں۔ ایئر چیف امر پریت سنگھ کے ان دعووں کے بعد بھی ان میڈیا گروپس نے اس دعوے کی تصدیق کیوں نہیں کی؟ ایک اور بڑا سوال یہ کہ تین ماہ بعد اس دعوے کے ساتھ ایئر چیف نے ثبوت کیوں نہیں پیش کیے اور ان طیاروں کی ساخت وغیرہ کیوں نہیں بتائی گئی جو ان کے بقول گرائے گئے تھے۔ جے ایف17 تھنڈر’ ایف16′ جے 10سی’ ان طیاروں میں سے کون سے تھے اور کتنے؟ حالیہ دنوں میں بھارتی پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر گرما گرم بحث ہوتی رہی ہے۔ وہاں وزیراعظم مودی اور وزیر دفاع راج ناتھ نے یہ خبر کیوں نہیں سنائی؟ یہ تو بہت بڑی خبر تھی۔ پھر اگر ایئر چیف کے دعوے درست ہیں اور یہ بات بھی کہ بھارتی فضائیہ کے ہاتھ باندھ کر انہیں آپریشن پر نہیں بھیجا گیا تھا تو انڈونیشیا میں بھارتی نیوی کمانڈر نے کیوں یہ بات کہی تھی؟ سی ڈی ایس انیل چوہان نے انٹرویو میں اپنے نقصانات کا اعتراف کیوں کیا تھا؟ اور اہم ترین بات یہ کہ بھارتی فضائیہ کے اپنے طیاروں کے نقصانات کیا تھے؟ بھارتی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے تین ماہ سے اس پر مکمل سکوت ہے۔ اتنے سوالات ہیں جو ایک کے پیچھے ایک کھڑے ہیں۔ بھارتی میڈیا اس بیان کی خوشی منانا چاہتا ہے لیکن گلے میں ایسے سوالات اٹکے ہوئے ہیں جنہوں نے سانس لینا محال کر رکھا ہے۔ کئی میڈیا گروپس اور اینکرز نے یہ سوال اٹھائے ہیں اور اپنی اپنی حد تک ان دعووں کو کم از کم مشتبہ قرار دیا ہے۔ بعض نے تو کھل کر انہیں غلط کہا ہے۔ اس لیے ان سوالات کے ہوتے ہوئے اور ثبوت کی عدم موجودگی میں انڈین ایئر فورس چیف کے ان دعووں کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

تو پھر یہ جھوٹ کیوں بولا گیا اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ ایئر چیف نے جو خطاب کرنا ہو یا پریس ریلیز جاری کرنی ہو’ وہ متن وزارتِ دفاع کو پہلے بھیجا جاتا ہے’ وہاں سے منظوری کے بعد یہ جاری ہوتا ہے۔ اس منظور شدہ پریس ریلیز میں یہ دعویٰ سرے سے موجود ہی نہیں کہ چھ پاکستانی طیارے گرائے گئے تھے۔ گویا اس خطاب میں ابتدائی طور پر یہ دعویٰ نہیں تھا’ بعد میں شامل کیا گیا۔ منظوری اور خطاب کے بیچ کے دورانیے میں یہ بات ایجنڈے میں شامل ہوئی۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ چھ پاکستانی طیارے گرائے جانا سب سے بڑی خبر تھی’ اسے سب سے پہلے ذکر ہونا چاہیے تھا لیکن امر پریت سنگھ نے یہ سب سے آخر میں ذکر کی۔ اس کے ساتھ طیاروں کی تفصیل اور ثبوت لازمی ہونے چاہئیں تھے جو شامل نہیں تھے۔ تو کس بڑی شخصیت کے دباو پر ایئر چیف کو یہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ کوئی ایسی مقتدر شخصیت ہی ہو گی جس کے تحت ایئر فورس آتی ہو۔

اس بیان کی ٹائمنگ کو دیکھیں تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر جو وزنی سوالات اٹھائے ان کا جواب بی جے پی سے نہیں بن پڑا۔ بہار میں الیکشن کمیشن اور انتخابی دھاندلی کا مسئلہ اس وقت زوروں پر ہے اور راہول گاندھی سمیت کئی رہنماوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ٹرمپ کا معاملہ مودی کیلئے بڑا دردِ سر ہے’ جس نے بھارت پر 50فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اور بھارتی طیاروں کے گرائے جانے کی تصدیق بھی کی ہے۔ مودی اور بی جے پی کی مقبولیت مسلسل گر رہی ہے اور اسے سیاسی زوال سامنے نظر آرہا ہے۔ ان سب معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش نے یہ جھوٹے دعوے کرائے گئے ہیں اور بھارت کے عوام اس کے اصل مخاطب ہیں’ باقی دنیا نہیں کیونکہ باقی دنیا تو سچ جانتی ہے۔ بھارتی سیاسی قیادت نے خود کو بچا کر ایک بار پھر فوج کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اصولاً یہ دعوے تو مودی اور راج ناتھ کو کرنے چاہئیں تھے اور اس کا کریڈٹ لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے ایئر چیف سے یہ دعوے کیوں کروائے؟ پہلے انہوں نے افواج کو زبردستی آپریشن سندور کی طرف دھکیلا اور پھر اپنے نقصانات کی تفصیل بتانے نہیں دی اور اب اس جھوٹ در جھوٹ کو ایئر چیف جیسے بڑے منصب کے سر منڈھ دیا گیا۔ فضائیہ اور فوج کے اندر تو سب کو اصل صورتحال معلوم ہوتی ہے۔ ماتحتوں کے سامنے’ جو سچ جانتے ہیں’ ایئر چیف کی کیا عزت رہ گئی۔ اب یہ داغ’ جو وہ خود پر لگا چکے ہیں ‘ اس کے ساتھ ہی وہ ریٹائر ہوں گے۔ ایسے داغ تمغوں اور عہدوں سے کہاں چھپتے ہیں۔