مدنی مسجد کی افسوسناک شہادت

گزشتہ دنوں اسلام آباد کی شہید مدنی مسجد کے پلاٹ پر نماز جمعہ کے وقت جانا ہوا تو دیکھ کر دل بھر آیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں چند روز قبل ایک شاندار مسجد قائم تھی، جہاں مری روڈ سے گزرتے ہوئے راقم الحروف نے بھی نمازیں ادا کی تھیں۔ مسجد کی جگہ اب مٹی اور کیچڑ تھا جبکہ قریب ہی نالے کے کنارے ملبہ پڑا ہوا تھا۔ نہایت افسوس ہوا اپنے حکمران طبقے پر جنہوں نے اتنی بے دردی سے مسجد کو شہید کر دیا اور ایسے خاموشی سے راتوں رات یہ کارروائی ہوئی کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی۔ راتوں رات شہادت سے یاد آیا کہ موجودہ وزیراعظم کے برادر کبیر کے گزشتہ وزارت عظمیٰ کے دور میں راتوں رات ایک شہادت ہوئی تھی جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی تھی اور وہ شہادت غازی ممتاز قادری کی تھی تو اس مسجد کی شہادت نے وہ یاد بھی تازہ کر دی۔ یہ اعمال موجودہ حکمران جماعت کے گلے پڑیں گے۔

بہرحال مسجد کی شہادت کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ یہ مسجد غیر قانونی تھی اور سی ڈی اے کے گرین بیلٹ پر قبضہ کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا ہے جسے عوام کو گمراہ کرنے اور اپنے غیرشرعی عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسجد اسلام آباد اور سی ڈی اے ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان سے بھی تقریباً پندرہ برس قبل تعمیر کی گئی تھی اور اسلام آباد کی بنیاد رکھنے سے ستائیس برس قبل یہ مسجد قائم ہوئی۔ سی ڈی اے اور اس کے گرین بیلٹ تو بہت بعد کی پیداوار ہیں جنہیں جواز بنا کر مسجد کو شہید کر دیا گیا اور اسے اتنی عجلت میں شہید کیا کہ ظالموں نے قرآن کریم بھی نہ نکالے، انہیں بھی ملبے میں دبا دیا۔

بہرحال یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ مسجد گرین بیلٹ پر قائم تھی بلکہ مسجد پہلے سے قائم تھی، سی ڈی اے کا گرین بیلٹ بعد میں وہاں بنا۔ اگر سی ڈی اے کو گرین بیلٹ میں مسجد سے اتنی ہی تکلیف تھی تو اپنا گرین بیلٹ وہاں نہ بناتے جہاں مسجد قائم تھی۔ اتنے بھونڈے دلائل دیے جا رہے ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ مختصر یہ کہ گرین بیلٹ یا قبضہ والی جگہ پر مسجد کی تعمیر کا پروپیگنڈا سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، مقصد محض مسجد کو شہید کرنا تھا جو کر دیا جبکہ اردگرد قائم بڑے بڑے ہوٹل اور کلب پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہے ہیں جو گرین بیلٹ پر قائم ہیں، انہیں کچھ نہیں کہا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد گرین بیلٹ کو خالی کرنا نہیں بلکہ مسجد کو نشانہ بنانا تھا۔ اگر گرین بیلٹ کو خالی کرنا مقصد ہوتا تو وہی مشینری جو مسجد کو شہید کرنے کے لیے آئی تھی مسجد کی شہادت سے فارغ ہو کر ہوٹلوں اور کلبوں پر چڑھ دوڑتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

افسوس صد افسوس ہم تو وہ لوگ ہیں جو بابری مسجد کی شہادت پر تڑپ اٹھتے ہیں، بھارت میں کہیں مسجد کی شہادت کی بات چلے تو ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے، فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے شہید کی جانے والی مساجد کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، ان مساجد کی شہادت پر ہم طنز کرتے نہیں تھکتے، انہیں صبح و شام تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اب ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسلام آباد میں لاکھوں مسلمانوں کے درمیان واقع مسجد کو بلاوجہ شہید کر رہے ہیں۔ جب ہم خود یہ حرکتیں کرنے لگے ہیں تو ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم دنیا میں کہیں بھی مسجد کی شہادت پر آواز بلند کریں۔ پھر ہم آواز بلند بھی کس منہ سے کریں گے، اب خدانخواستہ بھارت میں کوئی مسجد شہید ہو یا اسرائیل کوئی مسجد شہید کرے تو ہم انہیں روکنے کی کوشش کریں گے تو وہ کہیں گے پہلے اپنے اسلام آباد میں تو مسجدیں بچا لو۔

سرکاری جگہ پر تعمیر کی گئی مسجد کے بارے میں تمام علماء و مفتیان کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ جب مسجد تعمیر ہو گئی اور کچھ عرصہ تک اس میں نمازیں ہوئیں تو اب وہ شرعی مسجد کے حکم میں ہے جسے نہ تو شہید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے اب تاقیامت وہ جگہ مسجد کی ہی ہے۔ ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں: ”اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کریں اور اس میں کئی سال تک باقاعدہ پنج وقتہ نماز یں و جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور اتنے سالوں تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا تو ایسی تمام مساجد مسجدِ شرعی کا حکم رکھتی ہیں اور وہ مقامات تا قیامت مسجد کے حکم میں ہیں، ان کو گرانا یا ان کی جگہوں پر مسجد کے علاوہ کوئی اور عمارت بنانا شرعاً جائز نہیں، البتہ ایسے مواقع پر اہلِ علاقہ کو چاہیے کہ پہلے حکومت کو درخواست دیں کہ وہ علاقے کی دیگر بنیادی ضروریات کے انتظام کی طرح مسلمانوں کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت مسجد کی تعمیر کرے، ورنہ کم از کم اس کے لیے جگہ فراہم کرے، اگر انتظامیہ کی طرف سے اس سلسلے میں تعاون نہ ہو تو پھر زیادہ بہتر یہ ہے کہ کوئی صاحبِ خیر زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کردے، ورنہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے۔” (دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔ فتویٰ نمبر: 144204200506)