ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے، مختلف موضوعات زیر بحث تھے، اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا اپنی اپنی خواہشات بیان کرو۔ ایک شریک مجلس نے کہا:” میری خواہش ہے کہ یہ گھر دراہم سے بھرا ہوا ہو اور میں سارے درہم اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں”۔ دوسرے شریک نے کہا: ” میری آرزو ہے کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہوا ہو اور میں سارا سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں”۔ تیسرے نے کہا: ” میں چاہتا ہوں یہ گھر موتیوں اور جواہرات سے بھرا ہوا ہو اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دوں۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے علاوہ مزید تمنائیں بتاؤ ! سب نے کہا ہم اس سے بڑھ کر مزید کیا تمنا کریں؟ اس کے بعد انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمنا جاننے کی خواہش کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”میرا جی چاہتا ہے کہ یہ مکان ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنھم جیسے لوگوں سے بھرا ہو اور میں ان سب کو اللہ کی اطاعت میں استعمال کروں۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ جواب محض تاریخی واقعہ نہیں بلکہ سنجیدہ قیادت کی تیاری اور افراد سازی کی اہمیت کا واضح اعلان ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے نزدیک کسی سماج کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ سونا تھا نہ چاندی اور نہ ہی جواہرات بلکہ وہ افراد تھے جن کا فہم دین، تقویٰ، بصیرت اور بہادری قابل مثال تھی۔ آج ہماری مذہبی فکر نے افراد سازی کی سنجیدہ محنت کو چھوڑ کر محض ہجوم سازی اور نعرہ سازی کو دین کی خدمت سمجھ لیا ہے۔ مذہبی قیادتیں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ ہر دوسری گلی میں مذہبی وسیاسی جماعت کا دفتر موجود ہے۔ ہر تیسری گلی میں کوئی مذہبی ادارہ اور اس کا بااختیار مہتمم موجود ہے۔ مگرقیادت کی کثرت نے قیادت کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ دین کے فہم میں ہر دوسرا شخص خود کو مجتہد سمجھتا ہے۔ بڑوں کی رائے اور تجربے پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ہر نوخیز کو یقین ہے کہ اس کا فہم دوسروں سے بہتر ہے۔ ہر دوسرا فرد مذہب کے نام پر یوٹیوب چینل بنا کر مبلغ بنا بیٹھا ہے۔ ہر تیسرا فرد فیس بک پر تشریح دین کے منصب پر فائز ہے۔ ہر چوتھا فرد واٹس ایپ گروپ بناکر مفتی کے سابقے کے ساتھ فتوی جاری کر رہا ہے۔ اس پر مستزاد کہ ان سب رویوں کے لیے جو سنجیدہ علمی محنت، تدبر، گہرا مطالعہ اور فکری تربیت درکار ہے وہ ان میں سے بیشتر میں ناپید ہے۔ سطحیت،بھونڈی خود نمائی و خود ستائی،بے معنی لفاظی اور بے ذائقہ بیان بازی عام ہے۔
ہمارے مدارس کی صورت حال بھی عجیب ہے۔ کوئی جدید اور قدیم کے” امتزاج” کے تجربے میں مصروف ہے۔ کوئی انگریزی اور کمپیوٹر کے اضافے سے اصلاح کا دعوی دارہے۔ کوئی صرف قدیم کو گلے لگانے پر بضد ہے۔ کسی کے نزدیک نشاة ثانیہ کا واحد ذریعہ صرف جدید ہے۔ کسی کے نزدیک عصری علوم لازم ہیں۔ کسی کے نزدیک گمراہی کا دروازہ ہیں۔ سوال یہ ہے کیا یہ سب کوششیں کسی مشترکہ حکمتِ عملی اور بڑے مقصد کے تحت ہو رہی ہیں؟ کیا اس کے پیچھے افراد سازی کی کوئی سنجیدہ کوششیں کارفرما ہیں، کیا ان سب تجربات کے پیچھے ماہرین کی کوئی جماعت ہے جو اس کو لیڈ کر رہی ہے، کیا ان سب کوششوں کے پیچھے کبار علماء کی کوئی جماعت ہے جو ان کی سرپرستی کر رہی ہے؟ آخر یہ سب دین، احیائ، امت کی نشاة ثانیہ اور غلبہ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے تو یقینا اس کے پیچھے کوئی مربوط اور منظم نیٹ ورک ہوگا، ماہرین اور پروفینشلز کی پوری جماعت ہوگی اور یہ سب باقاعدہ دہائیوں کی پلاننگ کے تحت چل رہا ہوگا۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے تو میں آپ کو اس خواب سے جگانے پر معذرت خواہ ہوں۔
ہمارے ہاں اسلامی نظام کے قیام کے نعرے بڑے جوش سے لگائے جاتے ہیں لیکن یہ جاننے اور لوگوں کو بتانے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ اسلامی نظام ہے کیا، موجودہ زمانے میں اس کے قیام کا طریقہ کیا ہے، اس کے لیے کس قسم کے افراد درکار ہیں اور وہ کس طرح تیار کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سادہ اور عام فہم بات ہے کہ ادارہ سازی اور افراد سازی کے بغیر کوئی نظام قائم ہو سکتا ہے نہ چل سکتا ہے لیکن یہ شعور ہمارے ہاں ناپید ہے۔ ہمیں عالمی سیاست کا ادراک ہے نہ ملکی سماجی ڈھانچے کا علم۔ دور جدیدکے انسان کی نفسیات سے واقفیت ہے نہ مخاطب کی ذہنی حالت، لہجے، رویے اور ضروریات کا فہم۔ بس ہمارے پاس جو ایک سادہ پیغام ہے ہم نے بہرصورت اسے مخاطب کے دماغ میں ٹھونسنا ہے۔ اسے اپنے فرقے اور مسلک کے دائرے میں گھسیٹنا ہے اور اس کا واحد طریقہ جوشیلی خطابت اور نعرہ بازی ہے۔ ہماری دینی لغت میں”سنو، سمجھو، غور کرو، تحقیق کرو، تدبر کرو، حکمت سے بات کرو” جیسے الفاظ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ محنت، مطالعہ اور کتاب خوانی کا ذوق مفقود ہو ہے۔ جدید علوم وفنون سے آشنائی کا شوق ہے نہ ان کی اہمیت کا ادراک۔ محنت اور مطالعہ کے بجائے سطحیت ہے۔ غور وفکر اور تدبر کے بجائے نعرے اور چند یاد کردہ عبارتیں ہیں۔ سنجیدگی کے بجائے ہیجان ہے۔ ٹھہراؤ کے بجائے اضطراب ہے۔ سننے کے بجائے بولنے کا جنون ہے اور سوچنے کے بجائے مرمٹنے کا جذبہ ہے۔ اس پر مستزاد کہ اس سطحیت، ہیجان خیزی اور جذباتیت پر ضد اور اصرار بھی کہ یہی اصل حقیقتیں ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش بتاتی ہے کہ ایک سنجیدہ سماج اور باشعور قیادت کی اصل ترجیح ”افراد سازی” ہوتی ہے۔ ایسے افراد جو دین کا فہم رکھتے ہوں، جو فقیہ بھی ہوں، مجاہد بھی اور معلم بھی۔ جنہیں دنیا کا ادراک ہو اور آخرت کا شعور بھی۔ جو مخاطب کی نفسیات کا فہم رکھتے ہوں، جنہیں عالمی سیاست اور مقامی حالات و واقعات کی خبر ہو۔ جو جدید و قدیم کے ماہر ہوں۔ جو جذبات اور سطحیت کے بجائے حکمت اور بصیرت کے ساتھ معاشرتی تبدیلی کا سفر طے کریں۔ جو نعرہ سازی اور ہجوم سازی کے بجائے اداری سازی اور افراد سازی پر مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کریں۔ جنہیں یہ ادارک ہو کہ رجال کار کی تیاری دنوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ سالوں اور دہائیوں کا کام ہے اور اس کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی، مضبوط ادارہ سازی اور فکری تربیت کے بیسیوں مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔