کمرے میں تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما جناب ظفر احمد انصاری کی آواز گونج رہی تھی۔ وہ اونچے لہجے میں کبھی نہیں بولتے تھے لیکن اس دن ان کی آواز قدرے اونچی تھی اور اس سے دکھ اور کرب چھلک رہا تھا۔ ہمارے آبائی مکان کاشانہ زکی سمن آباد موڑ لاہور کو ان کی مستقل میزبانی کا شرف حاصل تھا اور ان سے ملاقات کے لیے نامور لوگ آیا کرتے تھے۔ صرف انصاری صاحب ہی نہیں ان دنوں ہم سب دکھ اور کرب سے بھرے ہوئے تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ تازہ تازہ تھا اور دن ہو یا رات مصروفیت ہو یا فراغت ذہن اس طرف سے ہٹتا ہی نہیں تھا۔ دل سے وہ بوجھ ہٹتا ہی نہیں تھا جو اس سانحے نے کروڑوں مسلمانوں کے دلو ں پر وزنی سل کی طرح دھر دیا تھا۔ قیام پاکستان کے فیصلے پر بہت سے شکوک اور شبہات تقویت پکڑ رہے تھے اور لوگ ان کے اظہار کے لیے انصاری صاحب کے پاس آتے تھے۔ اس وقت بھی ایک ایسے ہی ملاقاتی موجود تھے اور میں ایک کم عمر بچہ بطور سامع ایک گوشے میں موجود تھا۔
”دیکھئے! 1947ء کے دوراہے پر کھڑی مسلمان قوم کے پاس دو ہی راستے تھے؛ پاکستان ایک الگ ملک بنانا اور الگ قوم کی حیثیت اختیار کرنا یا متحدہ ہندوستان کا نیا ملک بننا اور ہندو اکثریت کے ساتھ اقلیت بن کر رہنا۔ ان دونوں پر بیک وقت نہیں چلا جا سکتا تھا۔ ایک راستہ اختیار کرنا تھا۔ دونوں کے اپنے ممکنہ فائدے اور ممکنہ نقصان تھے۔ ہم نے پاکستان کا راستہ اختیار کیا۔ اس راستے کے نتائج 25سال بعد ہمارے سامنے ہیں۔ یہی راستہ درست تھا اور اگر آج بھی یہ فیصلہ کرنا پڑے تو یہی راستہ بہتر ہوگا۔ دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے جو بدرجہا مہلک اور نقصان دہ ہوتے۔ لیکن چونکہ وہ نتائج سامنے نہیں آئے اس لیے ہم پہلے راستے پر تنقید کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ جو کچھ 25سال میں ہوا وہ اس فیصلے کی غلطی نہیں ہمارے بعد کے زمانوں کی مہلک غلطیاں ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ دوسری صورت میں دوسرے راستے کے بدترین نتائج سامنے ہوتے اور ہم اپنے بڑوں کو کوس رہے ہوتے کہ انہوں نے الگ ریاست کا فیصلہ کیوں نہیں کیا تھا۔”
54 سال پہلے کی یہ گفتگو اور یہ آواز اس طرح میرے حافظے میں موجود ہے جیسے میں اسے اس وقت سن رہا ہوں۔ 1971ء بہت پیچھے رہ گیا اور وقت ٹِک ٹِک کرتا بہت آگے نکل آیا۔ زمین نے کروٹیں بدلیں، رہنما بدلے حالات بدلے۔ برصغیر کے ملکوں میں زمین آسمان کی تبدیلیاں آئیں اور 1947ء کے مزید نتائج سامنے آتے گئے۔ آج انصاری صاحب زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھتے کہ وقت نے 1947ء میں قیام پاکستان کے فیصلے کی کس طرح توثیق کی ہے اور کس طرح دوسرے راستے پر نہ چل کر بھی ہم اس کے نتائج کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ میں پانچ اگست پر بنگلادیش کو عوامی لیگ سے نجات کا جشن مناتے دیکھتا ہوں۔ وہاں کے بیانات اور تقریریں سنتا ہوں۔ قائداعظم کے یوم وفات پر تقریبات منعقد ہوتے دیکھتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح نہ ہوتے تو بنگلادیش ایک الگ ملک بن ہی نہیں سکتا تھا تو مجھے 1971ء کے دن یاد آنے لگتے ہیں۔ 1971ء میں بنگلادیش پاکستان سے ٹوٹ کر بھارت میں ضم نہیں ہوا تھا بلکہ الگ قوم کی حیثیت اختیار کی تھی۔ الگ ہونے والے لوگ اپنے فیصلوں میں آزاد تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے جس طرح بھارت کی حاکمانہ بالادستی اور مفاد پرستی کا مزہ چکھا وہ تلخ ترین تجربہ تھا۔ بھارت سے ان کی نفرت اب اس سے بدرجہا زیادہ ہے جو 54سال پہلے ان کے دلوں میں چند مفاد پرستوں کے ذریعے مغربی پاکستانیوں کے خلاف بھری گئی تھی۔ جب بنگالی مسلمان یہ کہتے ہیں کہ پانچ اگست اُن کا اصل یوم آزادی ہے تو وہ اس تمام تاریخ کو دہرا دیتے ہیں جو 54سال طویل ہے۔
لیکن بنگلادیش تو 1947ء کے دوراہے کا محض ایک پہلو ہے۔ جن مسلمانوں نے بھارت میں ہندو اکثریت کے زیر حکمرانی زندگی گزاری اور گزار رہے ہیں وہ اس دوراہے کے اصل مضمرات کا کھلا ثبوت ہیں۔ اصل نتائج بھارتی علاقوں سے آئے ہیں۔ بات صرف کشمیر کی ہی نہیں جو متنازع خطہ ہے اور جہاں لاکھوں کشمیریوں کی قبریں صبح آزادی کا انتظار کرتی ہیں۔ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کو بھی چھوڑ دیجیے جو تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ بننے تھے۔ اُن غیرمتنازع علاقوں کی بات کر لیجیے جو بھارت کا حصہ ہیں اور 1947ء میں بھی یقینی تھا کہ یہ بھارت ہی کا حصہ رہیں گے۔ آسام سے گجرات تک اُترپردیش سے بہار تک۔ کون سا علاقہ ہے جس میں مسلمان مسلسل عذاب سے نہیں گزرے۔ کون سے خواب تھے جو نہیں ٹوٹے۔ کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
ہندو اکثریت نے وہ کچھ ان کے ساتھ کیا جن کی 1947ء کے زمانے میں ہمارے قائدین پیش گوئی کر چکے تھے۔ سیکولر آئین کے باوجود آئینی دفعات کے ہوتے ہوئے کون سا ظلم ہے جو باقی رہ گیا۔ مسلم کش فسادات، مسجدوں کی مسماری، تاریخی مسلم کرداروں کے بارے میں مسلسل منفی پروپیگنڈا، مذہبی آزادی کی پامالی، مسلم شعائر پر پابندیاں، مسلم مخالف امتیازی قوانین، سرکاری ملازمتوں میں مذہبی تفریق، نجی اداروں میں امتیازی سلوک۔ معمولی بات پر بلڈوزروں سے گھر مسمار کر دینا ،دکانیں جلا دینا۔ کون سا ظلم نہیں ہوا؟ نہرو سے آج کے مودی تک ہر دور میں کانگریس بی جے پی اور دیگر حکومتی اتحادوں سمیت کسی بھی زمانے کی تاریخ اٹھالیں کم اور زیادہ کا فرق تو نظر آئے گا، کھلی اور چھپی عداوت کی مثالیں تو ملیں گی، دشمن اور منافق کا فرق تو دکھائی دے گا لیکن برابری انصاف اور بھاری مسلم اقلیت کی قدر اور ان کا اعتراف کبھی نظر نہیں آئے گا۔
زبان سے مسلمانوں کی حمایت کرنے والوں میں بھی کبھی نظر نہیں آئے گا کہ ان کے دل میں یہی کچھ ہے۔ آج جب میں کئی بھارتی نامور مسلمانوں کو پاکستان کے لیے بدزبانی دیکھتا ہوں، ان کی کوششیں دیکھتا ہوں کہ وہ ہندوئوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر پاکستان کی مخالفت کریں تاکہ ثابت کرسکیں کہ وہ بھارتی محب وطن ہیں۔ اسلام اور مسلم روایات کے لیے اُن کی زہرافشانی سنتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرسکیں تو مجھے 1947ء کا فیصلہ یاد آجاتا ہے۔ یاد آجاتا ہے کہ کہا گیا تھا کہ بھارت میں مسلمان خود کو بھارتی ثابت کرنے میں عمریں گزار دیں گے۔ میں جب مسلم قیادت کا شدید بحران دیکھتا ہوں اور کروڑوں مسلمانوں کو انتظامی اور قانونی شاطرانہ چالوں کے ذریعے بے حیثیت دیکھتا ہوں تو 1947ء کا دوراہا یاد آجاتا ہے۔ جب بھارت کی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی بے وقار نمائندگی دیکھتا ہوں تو 1947ء کی پیشگوئیاں یاد آنے لگتی ہیں۔
آج جب میں بھارتی مسلمانوں کی شہادتوں، پکڑدھکڑ اور ایک خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر کئی نامور مسلمانوں کا مسلسل سکوت سنتا ہوں تو وہاں موجود نہ ہوتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں کا دکھ محسوس کر سکتا ہوں۔ جب مجھے علم ہوتا ہے کہ یو پی، مہاراشٹر ،ہریانہ ،بہار، گجرات اور آسام سمیت پورے بھارت میں کسی مسلمان کو کرائے پر مکان نہیں دیا جاتا۔ ہندو گلی محلوں میں اگر کوئی مسلم گھر موجود ہو بھی تو اسے ایسا اچھوت سمجھا جاتا اور اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ گھر بیچنے پر مجبور ہو جائے تو مجھے انصاری صاحب یاد آ جاتے ہیں۔ آج انصاری صاحب زندہ ہوتے تو وہ 14اگست کی حیثیت مجسم ہوتے دیکھتے۔ وہ 1947ء کے دوراہے میں دونوں پر بیک وقت چلنے والوں کو دیکھتے۔ دونوں کے نتائج اور اثرات دیکھتے۔ وہ اپنے ملاقاتیوں کے سامنے دونوں راستوں پر چلنے والوں کے معاملات رکھ دیتے اور معاملات رکھنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی! یہ تو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کے سامنے ہیں کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں۔ واقعات اور مشاہدات خود دلیل ہیں۔ 14اگست 2025ء نے 14اگست 1947ء کو جس طرح روشن کیا ہے ایسا ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔