خان کی سیاسی عدم بلوغت۔ درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے

یہ ایک حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی سیاست کا عنوان اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کو بنایا ہوا ہے۔ 9مئی کو ملک کی دفاعی تنصیبات پر حملوں کا مقصد بھی شاید یہی ہو کہ اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت ہو جائے، حالاں کہ احتجاج اور حملے دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب رہے لیکن سیاسی عمل ایک بھنور میں پھنس گیا۔ یہ بھنور بانی پی ٹی آئی کی سیاسی خواہشات کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ چہرہ تو برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن رشتے داری بھی اسی کے ساتھ چاہتے ہیں۔ سیاسی عدم بلوغت اور انانیت کے باعث درد لادوا کے شکار ہیں۔
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو 47سال قبل پھانسی لگتے وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن پارٹی قیادت ان کی رہائی میں نا کام رہی، جس ’ہائبرڈ نظام‘ کی بات بار بار کی جارہی ہے اس ’نظام‘ کی پیداوار شریف بھی ہیں اور عمران بھی۔ کل عمران خان فائدہ اٹھا رہے تھے، آج زرداری اور شہباز شریف اِس سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ ریاستی جبر اور قید وبند کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ، لچک بھی سیاست کا حصہ ہے۔ احتجاجی تحریک چل نہیں پارہی، جس کی بنیادی وجہ قیادت کا غیر سیاسی مزاج اور مقتدرہ کا انکار ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے بارے میں آئینی عدالت کا فیصلہ اِس جانب واضح اشارہ کرتا ہے کہ آنے والے کچھ فیصلے عمران کی واپسی کو ناممکن کردیں گے۔ آنے والا وقت خان صاحب اور پارٹی کیلئے کٹھن ہوگا۔ 190ملین کیس اور نومئی میں اگر جنرل فیض حمید کو بڑی سزا ہو جاتی ہے تو یہ خان کیلئے اچھی خبر نہیں۔ عدالتی میدان میں کانٹے ہیں تو سیاسی میدان میں بھی خاردار تاریں ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف میں صرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے، ایسے میں تحریکیں نہیں چلا کرتیں۔ خان صاحب کے پاس فیصلے کرنے کا وقت زیادہ نہیں۔
اس مرحلے پر یہ تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بھٹواور نواز شریف کو ڈکٹیٹروں نے اقتدار سے محروم کیا تھا۔ بانی پی ٹی آئی ایک آئینی عمل کے ذریعے اقتدار سے محروم ہوئے جسے انھوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت بنیادی مسئلہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا ہے جو عدالتی فیصلے کے ذریعے پی ٹی آئی کو نہیں ملیں۔ قانون وہی کہتا ہے جس کے مطابق عدالت نے فیصلہ دیا۔ پی ٹی آئی نے انتخابات کے بعد یکے بعد دیگرے غلطیاں کر کے مخصوص نشستوں کا حصول اپنے لیے ناممکن بنا دیا تھا۔ اب اس کے وکلا کی خواہش تھی کہ یہ فیصلہ نظریہ ضرورت کے تحت دیا جائے۔ یہ ممکن نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کی دوسری کوشش یہ تھی کہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ کر دے۔ 2014سے لے کر 2018کے تجربات کے بعد اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ہماری مداخلت ملک کو کبھی راس نہیں آئی، اس لیے اب ہم علیحدہ رہ کر آئینی نظام کو مضبوط کریں گے۔ پی ٹی آئی اس کے بالکل الٹ چاہتی ہے۔ اس کی واحد خواہش یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے دوبارہ ایوان اقتدار میں پہنچا دے۔ بقول امیر خسرو
زحالِ مسکیں مکن تغافل، دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
مجھ غریب کی حالت سے غافل نہ ہو، آنکھیں پھیر کر باتیں مت بنا میری جاں، مجھے جدائی کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگاتے۔ صرف ایک راستہ ہے جس پر چل کر ٹی آئی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وہ راستہ ہے حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات اور رابطوں کا۔
سیاست محض الزامات، بائیکاٹ اور عدم اعتماد کے گرداب میں پھنسی رہے گی تو اس کا نقصان صرف مخالف جماعت کو نہیں بلکہ ملک کی بنیادوں کو ہوگا۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ موجودہ حالات کا ادراک حقیقت پسندانہ انداز میں کرے۔ اس ابہام سے نکلنا ہوگا کہ وہ صرف عدالتی یا احتجاجی عمل کے ذریعے اپنے سیاسی مسائل حل کر لے گی۔ پاکستان کا زمینی سیاسی منظرنامہ اس وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ تمام بڑی جماعتیں، بشمول پی ٹی آئی، بات چیت کے عمل میں شامل ہوں اور صرف اپنی قیادت یا جماعتی مفاد کو ترجیح دینے کی بجائے قومی مفاد کو اولیت دیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی کو چاہیے کہ مذاکرات کے لیے ایک قابلِ اعتماد، بااختیار ٹیم تشکیل دے، جس کا مینڈیٹ واضح ہو اور جو صرف سیاسی جماعتوں سے نہیں، بلکہ ریاستی اداروں اور معیشت کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کا عمل مربوط رکھے۔ جو سیاسی جماعتیں اس مرحلے پر قومی ہم آہنگی کے سفر میں شریک ہوں گی، تاریخ ان کی سوچ کو بلند نظری، دور اندیشی اور بالغ سیاسی فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔
پی ٹی آئی کو اس راستے سے مخصوص نشستیں بھی ملنے کا امکان تھا۔ سیاست کا بھنور پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس میں پھنس گئی ہے۔ پی ٹی آئی جتنی جلد بھنور سے خود کو نجات دلائے گی، اتنی جلد ہی اس کے مسائل حل ہوں گے اور ملک بھی تبھی اس مخمصے سے نکل پائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں ہی نہیں، حراستی پارٹی میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ تبھی شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسیر قیادت نے مذاکرات کا خط لکھ دیا ہے اور عمران خان کی بدقسمتی دیکھئے کہ پارلیمانی پارٹی نے ان کی ہاں لئے بغیر مذاکرات کی حامی بھر لی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پی ٹی آئی نے مزاحمت نما مفاہمت کی طرف قدم بڑھایا ہے، یعنی عمران خان کو بچا لیا گیا ہے تاکہ کل کو اگر مذاکرات کی دال نہ گل سکے تو عمران خان دوبارہ سے اپنا ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے مذاکرات سے منع کر سکیں اور پی ٹی آئی کو ایک بیانیہ مل سکے کہ عمران خان نے تو مذاکرات کا کہا ہی نہیں تھا۔ یہ تو اسیر قائدین کا آئیڈیا تھا جو ناکام ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی ایسی ہی چالاکیاں دکھاکر ایک ایسی سیاسی کھائی کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں سے واپسی کی راہ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کی شکل میں ایک تجربہ کرکے بھی دیکھ لیا
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں
اب اگر دوبارہ سے 2014کی طرف مڑ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ساری چالیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو توڑ کر پی ٹی آئی بنانے کا کام شروع کیا لیکن آج 2025میں اس کام کو بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ عمران خان کی سیاسی عدم بلوغت نے انہیں تنہا کر دیا ہے۔ عمران خان سمجھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کو ان کی ضرورت ہے، انہیں اسٹیبلشمنٹ کی نہیں ہے
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں
لیکن وہ اس حقیقت کو نہ جان سکے کہ عوام انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں، سیاسی قائد نہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ ان کی مقبولیت بچوں، نوجوانوں اور خواتین سے آگے نہ بڑھ سکی اور ملک کے سنجیدہ طبقوں نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اب جبکہ پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات کےلئے تیار ہے اور اس حوالے سے باضابطہ اعلان بھی کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اتنا زیادہ سیاسی سرمایہ لٹا کر پی ٹی آئی کس برتے پر حکومت سے اپنی مرضی منوا سکے گی۔ ان مذاکرات کا بس اتنا سا فائدہ ہوگا کہ کچھ دوسرے اور تیسرے درجے کے اسیر قائدین کی رہائی ہو جائے گی اور فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کو کچھ بریک مل جائے گی لیکن اگر اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان دوبارہ سے ملکی معیشت کو بگاڑنے کےلئے آزاد چھوڑ دیے جائیں گے، تو ایسا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
پی ٹی آئی پراجیکٹ کو بند کرنے کا فیصلہ تو بہت پہلے ہو گیا تھا، اس کی عملی شکل اب واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان مذاکرات سے پی ٹی آئی کو وہ کچھ نہیں ملے گا جس کی وہ خواہاں ہے۔ بہرحال ایک مصافحہ سیاسی جمود کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتا ہے تو اسے رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ فریقین کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعتی ترجیحات کو پسِ پشت ڈال کر قومی تقاضوں کو مرکزِ نگاہ بنائیں۔ اسی میں پاکستان کا مستقبل مضمر ہے۔