علامہ اقبال نے امامِ عالی مقام حضر ت حسینؓ کی شخصیت کردار اور بے مثال ایثار وقربانی کو فہمِ اسلام کا ایک استعارہ بنایا ہے۔ کردارِ حسینی ان کی نظر میں ایک مثالیہ ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا: رمزِ قرآں از حسین آموختیم یعنی میں نے قرآن کے اسرار ورموز کو حسینی کردار سے سمجھا ہے۔ ان کی اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حق کو چراغِ مصطفوی اور باطل کو شرارِ بولہبی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسالت کا مقصد بھی یہی بتایا ہے: ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرک اسے ناپسند کریں۔ (الصف: 9، التوبہ: 33) ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بعثتِ رسالت کا مقصد حق کی حقانیت اور باطل کے بطلان کو واضح کر کے اللہ کے بندوں پر اس کی حجت کو قائم رکھنا ہے، اسی کو اِحقاقِ حق اوراِبطالِ باطل کہتے ہیں۔ یہ مقصد اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا: ”اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کے واقعات ہم اس سے پہلے آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ایسے رسول بھی بھیجے جن کا تذکرہ ہم نے اس سے پہلے آپ کے سامنے نہیں کیا اور اللہ نے موسی سے کلام فرمایا (اسی طرح) ہم نے (جنت کی) بشارت دینے والے اور (جہنم سے) ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ لوگوں کیلئے ان رسولوں کی بعثت کے بعد اللہ کے حضور کوئی (قابلِ قبول) عذر باقی نہ رہے اور اللہ بڑا غالب اور عظیم حکمت والا ہے۔ (النسآ: 164 تا 165) الغرض ان آیاتِ مبارکہ میں بعثتِ نبوت ورسالت کی حکمت کو بیان کیا ہے اور یہ بھی واضح فرمایا کہ حق وباطل کی معرکہ آرائی ہمیشہ جاری رہے گی اور اللہ کے انبیائے کرام علیہم السلام کا فریضہ دینِ حق کو غالب کرنا اور حق کی حقانیت وصداقت کی حجت کو قائم کرنا رہا ہے اور یہ دعوت ہمیشہ کافروں مشرکوں اور باطل کے پیروکاروں کو ناپسند رہی ہے بلکہ ایسے ادوار بھی آتے رہے کہ ملمع کاری کر کے باطل کو حق بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے عہدِ مبارک میں یہی معرکہ بپا تھا اورجب حکمتِ دین کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ تحکیم پر راضی ہوئے تو اس عہد کے خوارج نے اپنے باطل نظریات پر قرآنِ کریم ہی سے استدلال کرتے ہوئے کہا تھا: ”حکم تو بس اللہ ہی کا چلے گا۔(الانعام: 57) اس پر امیر المومنین نے فرمایا تھا: ”یہ کلمہ تو بلاشبہ حق ہے لیکن اس سے باطل مراد لیا جا رہا ہے۔ (مصباح الزجاجہ شرح ابن ماجہ للسیوطی ص: 15) اسی کو تلبیس یعنی دھوکا دے کر حق اور باطل کو خلط ملط کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا: ”اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور تم جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہو۔(البقرہ: 42) اسے کِتمانِ حق سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
معرکہ کربلا بھی اسی اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کے نبوی مشن کا تسلسل ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔(ترمذی: 3775) یعنی حسین میری نسل سے ہیں، ان کی اور میری محبت لازم وملزوم ہے اور میرے کمالات یعنی اسلام کی دینی اقدار کی تکمیل اور تسلسل حسین کے ذریعے ہوگا اور میرا مشن جاری رہے گا۔ اسی مشن میں خلافت علی منہاجِ النبوة کا تسلسل بھی ہے۔ معرکہ کربلا کو بیتے ہوئے 1386برس ہو چکے ہیں لیکن یہ سانحہ امت کے ذہن میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کل وقوع پذیر ہوا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ تذکارِ حسین کرنے والے بھی بہت ہیں راہِ حق میں ان کی بے مثل و بے مثال قربانیاں بیان کرنے والے بھی بہت ہیں۔ ماشاءاللہ ایک مضمون کو سو طرح سے باندھنے کا پورا ملکہ اور مہارت رکھتے ہیں، ان کا غم بھی تازہ کیا جاتا ہے لیکن ان کی وہ اقدار جن کے اِحیا کی خاطر انہوں نے تاریخِ انسانیت کی عظیم قربانی پیش کی ان کو زندہ کرنے والے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو ان کے سانچوں میں ڈھالنے والے کم ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
تابدار کے معنی چمک کے ہیں پس دِجلہ وفرات کے گیسوﺅں کی آب وتاب اور چمک دمک یعنی یزیدی اقدار اب بھی اسی شان سے قائم ہیں ہمارے نظام میں سرایت کی ہوئی ہیں، یزید کو مطعون کرنے والے تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن یزیدی اقدار سے بغاوت کرنے والے یا انہیں جڑ سے مٹانے کی جدوجہد کرنے والے کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ بس سوچنے کی بات یہی ہے اور علامہ اقبال کے پیغام کی روح اوراسلام کی تاریخ بھی یہی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہماری داستان ایسے ہی المیوں اور سانحات سے عبارت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
حضرت ابراہیم جب ابتلا وآزمائش کے مراحل سے گزرتے ہوئے عزیمت واستقامت کے اعلی مقام تک پہنچے تو قرآن نے فرمایا: ”جب (باپ بیٹا) دونوں نے (حکمِ الہی کے آگے) سرِ تسلیم خم کر دیا تو ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اور ان کے گلے پر چھری چلایا ہی چاہتے تھے کہ) ہم نے (پردہ غیب سے) ندا کی: اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم اپنے احسان شِعار بندوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں بے شک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔ (الصافات: 103تا 106) سیدنا اسماعیل کے فدیے کے طور پر تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے مینڈھا بھیج دیا مگر امام عالی مقام حضرت حسینؓ کو مع اہلبیتِ اطہار واعوان وانصار خود اس قربانی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اسی لیے اقبال نے اسے اسماعیل کی قربانی کی تکمیل قرار دیا ہے۔
