شہادت ِسیدنا حسینؓ ۔ عزم و ہمت کا چراغ

تحریر: مولانا محمد یونس الحسینی
رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس وہ چراغِ ہدایت ہے جس کی روشنی سے صدیوں کے اندھیرے چھٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراپا رحمت اور آپ کا ہر عمل اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
جب عظمتِ نبوت کے آفتاب نے دنیا کو منور کیا تو اس نورِ ہدایت سے چند ایسے نفوسِ قدسیہ نے روشنی پائی جن کے کردار رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔ انہی عظیم ہستیوں میں ایک عظیم نام گلِ رعنا باغِ رسالت ، حق کا علمدار،شہادت کا تاجدار، وفا کا مینار، نواسہ مصطفی،پیکرِ صدق و صفا،چراغِ ہدایت و وفا،مظلوموں کی صدا ،فرزندِ رسول، جگر گوشہ بتول، سیدناحضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، جو نہ صرف نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کا مجسم عکس بھی تھے۔ آپ ؓ کردار، وقار، علم، حلم، صبر، استقامت اور قربانی کا ایک ایسا مظہر تھے جو رہتی دنیا تک حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتا رہے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ماہ شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اِس حساب سے آپ رضی اللہ عنہ وصال نبوی کے وقت  6 سال  6 ماہ اور 12 دن کے تھے۔ ولادت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ کودیکھ کربہت مسرور ہوئے اور عنایت وشفقت کے ساتھ اپنے منہ مبارک میں کھجور چباکر حضرت حسینؓ کے تالو میں لگائی اور برکت کے لیے اپنا لعاب مبارک بھی آپؓ کے منہ میں داخل کیا۔ (سیرت حسنین کریمین ،ص: 78) حضرت حسینؓ وہ ہیں جن کی پیدائش پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خوشی منائی بلکہ ان کے کان میں اذان دی۔ ان کا نام ’حسین‘ رکھا (جو اسلام میں پہلی بار رکھا گیا) اور ان کے لیے محبت، دعا اور عظمت کے موتی بکھیرے۔ (مستدرک حاکم، جلد 3)
سیدنا حضرت حسینؓ سیرت وصورت میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال مشابہت رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ حضرت حسنؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرمبارک سے لے کر سینہ مبارک تک مشابہت رکھتے تھے اور حضرت حسینؓ سینہ مبارک سے لے کر قدم مبارک تک مشابہت رکھتے تھے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ جنہوں نے طویل عرصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی فرماتے ہیں:’حسین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ جب وہ آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے، اُن کا بوسہ لیتے اور سینے سے لگاتے‘۔
حضرت حسین ؓ  کا بچپن نبی کریم علیہ السلام کی آغوشِ مبارک میں گزرا، جہاں ہر لمحہ تربیت تھی، ہر لمس محبت اور ہر دعا رشد و ہدایت۔ آپؓ نے اپنے نانا کی گود میں آرام پایا، ان کی زبان کو چوسا، ان کے سینے پر سوئے اور ان کے کندھوں پر سوار ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ حضرت حسین ؓ  کو چوم رہے تھے اور فرما رہے تھے: ’اے اللہ! میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما‘۔ (ترمذی وصحیح بخاری) آپ ؓ کی پرورش اس پاکیزہ ماحول میں ہوئی جہاں سے انہیں نہ صرف علم و تقویٰ ملابلکہ عزیمت و غیرت، حلم و شجاعت اور صبر و رضا بھی وراثت میں ملا۔
آپ ؓ  کی جوانی علم، عبادت، اخلاق، شجاعت، صبر اور سخاوت کا آئینہ تھی۔ آپ ؓ کی شخصیت میں حضرت علی ؓ  کی شجاعت، حضرت فاطمہ ؓ  کی طہارت اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت جھلکتی تھی۔ حضرت حسینؓ نبی مکرم علیہ السلام کے وہ نواسے ہیں جنہیں آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں بارہا اپنی محبت اور اُمت کے لیے ان کی اہمیت کو ظاہر فرمایا۔ صحیح احادیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘۔ (ترمذی) ایک اور موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اُس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے‘۔ (ترمذی)
یہ حدیث محض جذباتی نسبت یاصرف قرابت کا بیان نہیں بلکہ یہ حضرت حسین ؓ کی روحانی اتصال وعظمت کا اظہار، ایمانی اور انقلابی نسبت کا اعلان ہے۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کا مقام نہ صرف نواسہ رسول ہونے کی وجہ سے بلند ہے بلکہ آپ کی دینی بصیرت، استقامت، تقویٰ، حلم، شجاعت اور سچائی نے بھی آپ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نگاہ میں اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔ حضرت حسین ؓ کی ذات گرامی اہل بیت نبوت کا درخشندہ ستارہ تھی جن کے فضائل و مناقب خود صحابہ کرام ؓکی زبانوں سے بیان ہوئے۔ حضرت عمرؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ جیسے خلفائے راشدین بھی آپؓ خاص محبت کرتے تھے اور آپ کی عظمت کے قائل تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی محبت کا خیال رکھو‘۔ (بخاری) یہ ارشاد اِس امر کی دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو محض اہلِ بیت ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی کے طور پر خاص عزت دی جاتی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کی عدالت اور دیانت کی مثالیں دی جاتی ہیں وہ بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اہلِ بدر کے برابر وظیفہ دیا۔ (الطبقات لابن سعد، جلد 5) یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ نواسگانِ رسول کو عظیم مجاہدین اسلام کے برابر درجہ دیتے تھے۔ روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو وہی مقام و مرتبہ عطا کیا جو صحابہ کے عظیم ترین افراد کو حاصل تھا۔ آپ ؓ اکثر فرمایا کرتے: ’یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول ہیںاور پھولوں کی خوشبو کو سونگھنا سنت ہے‘۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہلِ بیت کی ہمیشہ تعظیم کی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شفقت کا برتاو کیا۔ ان کے دور میں بھی حضرت حسین ؓ  کو خاص عزت و مقام حاصل تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت حسینؓ کی رکاب پکڑ کر ساتھ چلنے کو اللہ کا بڑا انعام سمجھتے تھے۔(البدایہ ج 8ص 158) جب کبھی سیدنا حسینؓ اپنے بھائی حضرت حسنؓ کے ساتھ حضرت سیدنا امیرمعاویہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بہت اکرام فرماتے اور اھلاً و مرحباً کے کلمات سے اظہار مسرت فرماتے تھے۔ (البدایہ ج 8ص 150) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو ’ترجمان القرآن‘ اور علوم نبوت کے وارث تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے خاص محبت رکھتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ’حسین علم، حلم اور فضل میں اپنے وقت کا بے مثل جوان ہے‘۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ جو اہل بیت کی قربت میں رہنے والے صحابہ میں شامل ہیں، فرماتے ہیں: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اہلِ بیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں۔ تین بار فرمایا: میرے اہلِ بیت کے بارے میںاللہ سے ڈرو!‘ (صحیح مسلم) کوفہ میں موجود کئی اصحابِ رسول نے حضرت حسین ؓ کی عظمت کو سراہا ، انہیں دین کا علمبردار مانا۔
صحابہ کرام ؓ نے ہمیشہ حضرت حسین ؓ کی تعظیم کی، ان کی رائے کا احترام کیا، ان کے مقام و مرتبے کو پہچانااور ان کی شہادت پر شدید رنج کا اظہار کیا۔ یہی وہ روشنی ہے جو آج بھی اہلِ ایمان کے قلوب میں حضرت حسینؓ کی محبت کے چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔جب کربلا میں حضرت حسین ؓکی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو پورا شہر سوگوار ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوسعید خدری، حضرت انس بن مالک اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اِس غم کا گہرا اثر ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کئی دنوں تک روتے رہے اور فرمایا: ’حسین کی شہادت نے اُمت کے دل زخمی کر دیے ہیں‘۔
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ جو زہد و تقویٰ میں بلند مقام رکھتے تھے،حضرت حسین ؓسے بے حد محبت کرتے تھے۔ انہوں نے واقعہ کربلا کے بعد فرمایا: ’افسوس! حسین کو اس حالت میں شہید کیا گیا کہ وہ اہلِ زمین میں سب سے بہتر تھے‘۔ (تاریخِ ابنِ کثیر، جلد 8) حضرت حسین ؓ  کی شخصیت میں فقرِ صدیقی، عدلِ فاروقی، حیاے عثمانی اور شجاعتِ علوی کا حسین امتزاج تھا۔ حضرت حسینؓ نہ صرف اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج تھے بلکہ صحابہ کرام ؓ کی نظر میں علم، حلم، زہد، شجاعت اور تقویٰ کی روشن مثال تھے۔ ان کا ذکر ہر زبان پر ہے اور ان کی قربانی قیامت تک زندہ رہے گی۔ان کی عظمت صحابہ ؓ کی گواہی سے نمایاں ہیں اور یہی گواہی قیامت کے دن ان کے اعلیٰ مقام کی دلیل بنے گی۔
شہادتِ حسین ؓ  کوئی ماتم نہیں، یہ درس ہے۔شہادتِ حسین ؓ آنسووں کا سیلاب نہیں، عزم و ہمت کا چراغ ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسی تحریک ہے جو دلوں کو زندہ رکھتی ہے، ضمیروں کو جگاتی ہے۔ ہر اُس دل میںحضرت حسین ؓ آج بھی زندہ ہیں جو حق و صداقت سے محبت کرتا ہے، جو ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرتا ہے اور جو اسلام کے نام پر جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔سلام ہوحضرت حسین ؓ اور اُن کے قافلے پرجو رہتی دنیا تک حریت کا چراغ روشن کرگئے۔