القسام بریگیڈ کے نئے سربراہ عزالدین الحداد، اسرائیل کیلئے خوف کی علامت

رپورٹ: علی ہلال
غزہ کی پٹی میں سرگرم مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے نئے سربراہ قابض صہیونی فوج کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہورہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق عزالدین الحداد القسام بریگیڈ کے نئے سربراہ ہیں جن کی عسکری منصوبہ بندی سے اسرائیل کو غیرمعمولی جانی نقصان کا سامنا ہے۔ جمعے کو اسرائیلی فوجی ذرائع نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی دھڑوں نے حالیہ دنوں میں لڑائی میں ”زیادہ جرات“ کا مظاہرہ کیا ہے، ایسے وقت میں جب اسرائیلی افواج کو میدانِ جنگ میں بڑھتی ہوئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق فلسطینی گروہوں کی جانب سے مسلسل مزاحمت نے اسرائیلی افواج کی دراندازیوں کو روکنے میں کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں 18 مارچ سے جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد اب تک 33 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان تازہ جھڑپوں میں قابض صہیونی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ جمعے کے روز شمالی اور جنوبی غزہ میں دو مختلف جھڑپوں میں اس کے دو فوجی مارے گئے اور دو دیگر شدید زخمی ہوئے۔ اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے نے گمنام فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ وہ فلسطینی جنگجو جو پہلے چھپنے اور دفاعی انداز اپنانے کے عادی تھے، اب زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور مکمل طور پر مسلح ہوکر ہماری افواج پر حملے کررہے ہیں۔ قابض فورسز کے ذرائع کے مطابق ہم مسلح گروہوں کا سامنا کررہے ہیں جن کے پاس مشین گنز، آر پی جی راکٹ لانچر، بارودی سرنگیں موجود ہیں۔ ان کی صلاحیتیں مقامی سطح کی ہیں لیکن وہ ہماری افواج کی پوزیشنز پہلے ہی جانتے ہوتے ہیں اور انہی معلومات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب امریکا اسرائیل اور ’حماس‘ پر جنگ بندی کے لیے دباو ڈال رہا ہے، حماس کے فیصلے کا انحصار کافی حد تک غزہ میں اس کے نئے عملی قائد پر ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ برس یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد عزالدین الحداد نے غزہ میں عسکری ونگ کی قیادت سنبھال لی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر ایوی دیفرین نے کہا کہ الحداد اب حماس کا نیا کمانڈر ہے۔ ان کے مطابق الحداد جو پچاس کی دہائی کے وسط میں ہیں نے 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی قیادت میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی۔ یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کی حماس کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں کے شدید مخالف ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر باقی یرغمالیوں کی رہائی کی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں، جب تک کہ جنگ مکمل طور پر ختم نہ ہوجائے اور اسرائیلی افواج غزہ سے واپس نہ چلی جائیں۔

مبصرین کے مطابق القسام بریگیڈ کے نئے سربراہ صہیونی فوج کیلئے موت اور خوف کی علامت بن چکے ہیں

اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس کے سابق افسر اور فلسطینی اُمور کے ماہر مائیکل میلشتین نے کہا: ”اُس کے وہی سرخ خطوط (ناقابلِ قبول شرائط) ہیں جو اس سے پہلے رہنماوں نے طے کیے تھے۔ “اسرائیلی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’الحداد‘ اس وقت غزہ شہر میں مقیم ہیں جو اُن کا آبائی شہر بھی ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق حالیہ ہفتوں میں الحداد نے کہا ہے کہ وہ یا تو اسرائیل کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے ایک ”باعزت معاہدہ“ کریں گے یا پھر یہ جنگ ”آزادی کی جنگ یا شہادت کی جنگ“ بن جائے گی۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے کے مطابق ایک انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق الحداد چیچنیا کی روسی حکومت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ کو ایک ایک آئیڈیل نمونہ سمجھتے ہیں اور وہ غزہ کی پٹی میں اس کی پیروی کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ چیچن جنگجووں نے کئی سالوں تک روسی افواج کے خلاف جنگ لڑی جس نے اس پورے خطے کو تباہی سے دوچار کردیا تھا۔
اسرائیل اور ’حماس‘ کے درمیان باہمی مذاکرات کی ناکامی بار بار دُہرائی گئی اور یہ ناکام کوششیں نہ صرف فلسطینی شہریوں کی تکلیف کو طول دیتی رہیں بلکہ یرغمالیوں کے اہل خانہ کی پریشانی کو بھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے دشمنی روکنے کی کوشش تیز کی اور ایک نیا تجویزنامہ تیار کرنے میں مدد دی، جو کہ 60 دن کی جنگ بندی سے شروع ہوگا، جس کے دوران جنگ کے خاتمے پر بات چیت ہوگی۔ تادم تحریر حماس کے رہنما اِس تجویز پر غور کررہے ہیں جبکہ مذاکرات کے پہلے مرحملے کے بے نتیجہ ختم ہوجانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جنگ بندی کے تسلسل پر اختلاف ہے۔حماس ایک مستقل جنگ بندی پر اصرار کررہی ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو صرف اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا ہدف پورا کرکے دوبارہ غزہ کی پٹی پر جارحیت کے لیے کوشاں ہیں۔ صہیونی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پہلے ’حماس‘ کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کا خاتمہ ضروری ہے۔
واضح رہے کہ القسام بریگیڈ کے نئے سربراہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد حماس کے اُن چند زندہ بچ جانے والے اعلیٰ کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیا۔ وہ الجزیرہ چینل پر جنوری کے آخر میں نشر کیے گئے ایک دستاویزی پروگرام میں نظر آئے۔ اس انٹرویو میں جہاں ان کا چہرہ سائے میں چھپا ہوا تھا، الحداد نے کہا کہ قابض قیادت، جو امریکا اور مغرب کی حمایت یافتہ ہے، اسے ہمارے جائز مطالبات تسلیم کرنے ہوں گے۔ ان مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی انخلا، جنگ کا خاتمہ، فلسطینی قیدیوں کی رہائی، غزہ کی تعمیرِنو کی اجازت اور اشیاءکے داخلے و خروج پر عائد پابندیوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ اسی انٹرویو میں الحداد نے حماس کی جانب سے اسرائیل کو دھوکا دینے کی حکمتِ عملی پر بھی بات کی جو 7 اکتوبر 2023ء کے حملے سے پہلے اپنائی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مسلح گروپ نے اپنے اتحادیوں کو عمومی منصوبے سے آگاہ کیا تھا مگر حملے کی درست تاریخ اور وقت خفیہ رکھا اور اس بارے میں تفصیل نہیں دی کہ ’حماس‘ نے کن معلومات کا تبادلہ کیا۔
عزالدین الحداد جنہیں ساتھی ’ابوصہیب‘ کے نام سے جانتے ہیں حماس کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ان چند بچ جانے والے رہنماوں میں سے ہیں جو 7 اکتوبر کو عسکری شوریٰ میں شامل تھے۔ اُس وقت وہ غزہ شہر میں حماس کے مقامی عسکری کمانڈر تھے جبکہ محمد الضیف جو حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ تھے اور ان کے نائب مروان عیسیٰ 2024ء میں شہید ہوگئے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ایک انٹیلی جنس اہلکار اور ایک اسرائیلی دفاعی افسر کے مطابق ایسا سمجھا جاتا ہے کہ رائد سعد جو عسکری شوریٰ کے طاقتور رکن اور الحداد کے قریبی ساتھی ہیں، اب بھی زندہ ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی فوج الحداد کو قتل کرنے میں ناکام رہی لیکن غزہ کی وزارتِ صحت کے ریکارڈ کے مطابق اُن کا بڑا بیٹا صہیب جنگ کے دوران شہید ہوا ہے۔ اپریل میں اسرائیلی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک نے محمود ابوحصیرہ کے قتل کا اعلان کیا جسے اس نے الحداد کا دایاں بازو قرار دیا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق الحداد، جو عبرانی زبان بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، شمالی غزہ میں یرغمالیوں کے ساتھ وقت گزار چکے ہیں۔ مئی کے آخر میں اسرائیلی وزیردفاع یسرائیل کاٹز نے کہا کہ اسرائیل کا منصوبہ الحداد اور خلیل الحیّة کو قتل کرنا تھا جو کہ حماس کے سینئر مذاکرات کار ہیں اور قطر میں مقیم ہیں۔ حماس کی وہ دستاویزات جو اسرائیلی فوج کو غزہ سے ملی ہیں ظاہر کرتی ہیں کہ خلیل الحیة بھی 7 اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اسرائیل نے امریکی حمایت سے غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں اب تک تقریباً 1,93,000 فلسطینی شہید یا زخمی ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ 10,000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں اور لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی مہم نے شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیا اور ایک شدید انسانی بحران کو جنم دیا، جس میں فلسطینیوں کو خوراک اور پناہ کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔