تحریر: مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج
واقعۂ کربلا تاریخ اِسلامی کا وہ اندوہناک سانحہ ہے جو 10محرم الحرام 61 ہجری کو عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ سانحہ کربلا میں سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اہل بیتؓ اور رفقاءکے ساتھ دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول اور شیرِخدا رضی اللہ عنہ کے لختِ جگر اور رتبہ صحابیت پر فائز ہیں۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا حضرت محبوبِ ربُّ العالمین کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ان لاڈلوں سے اُلفت و موانست اور لاڈ پیار بے مثال ہے۔ حضرت یعلی بن مرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین ؓسے ہوں (لہٰذا حسین ؓسے محبت مجھ سے محبت ہے اور حسین ؓسے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے) اللہ تعالیٰ اُس شخص سے محبت کرتے ہیں جو حسین ؓسے محبت کرتاہے۔ (جامع ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوتِ طعام پر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ حسینؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑنا چاہا تو وہ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اُن کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر) خوش طبعی کرنے لگے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں پکڑ لیا۔ پھر اپنا ایک ہاتھ اُن کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہن طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔ (المستدرک للحاکم) سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول تھے، جس ماحول میں آپؓ نے پرورش پائی، اس سے پاکیزہ اور اچھے ماحول کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاءکے ساتھ نفلی حج پر جہاد فی سبیل اللہ کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیے۔ امام طبری، امام ابن کثیر اور دیگر بہت سے مورخین کے مطابق میدان کربلا میں اہل بیت اطہارؓ کے کل سترہ افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی غیرفاطمی اولاد میں سے بالاتفاق پانچ فرزند بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ بعض مورخین کے نزدیک یہ تعداد چھ ہے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت عباس بن علی، حضرت جعفر بن علی، حضرت عبداللہ بن علی، حضرت عثمان بن علی۔ ان چاروں کی والدہ محترمہ حضرت اُم البنین بنت حرام کلابیہ تھیں۔ بہت بڑی عابدہ،زاہدہ اور متقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمہ، فاضلہ اور محدثہ بھی تھیں۔علوم ظاہری و باطنی پر کامل دسترس رکھتی تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فیض اور ام البنینؓ کی تربیت نے ان چاروں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کیا جس کا عملی مظاہرہ میدان کربلا میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پانچویں بیٹے حضرت ابوبکر بن علی، جن کی والدہ محترمہ کا نام حضرت لیلیٰ بنت مسعوؓد تھا اور چھٹے بیٹے حضرت عمر بن علی شہید ہوئے۔
بعض مورخین کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے عمر نامی دو بیٹے تھے؛ ایک کا نام عمرالاکبر ہے، جن کی والدہ کا نام صہباءتغلبیہ تھا اور دوسرے کا نام عمرالاصغر ہے اور یہی عمرالاصغر میدان کربلا میں شہید ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام اُم حبیبؓ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ان تمام بہادر بیٹوں نے میدان کربلا میں نہ صرف شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا بلکہ آخری دم تک اپنے سپہ سالار اور بھائی شہید کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ وفاداری کا بھی بے مثال عملی مظاہرہ کیا۔
مختصر انداز میں واقعہ کربلا یوں ہے کہ کاتب وحی، جلیل القدر صحابی سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ مدینے میں موجود تھے۔ یزید جب تخت نشیں ہوا تو اس نے والی مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کی خلافت کے لیے بیعت لی جائے۔ والی مدینہ نے جب ان ہستیوں کو بلا کر یزید کا پیغام سنایا تو انہوں نے حالات کے پیش نظر مدینہ منورہ کو چھوڑ دیا اور مکہ مکرمہ چلے آئے۔ مکہ مکرمہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ موجود تھے تو کوفہ والوں کے خط آنا شروع ہوگئے کہ یزید تخت پر بیٹھ چکا ہے، وہ دین میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا کرنے کا مرتکب ہورہا ہے، اس کو اگر نہ روکا گیا تو دین اسلام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ ہم آپ ؓ کو اپنی پوری معاونت کا یقین دلاتے ہیں۔ لہٰذا آپ ؓ کوفہ تشریف لے آئیں۔ اسی طرح کے مضامین پر مشتمل تقریبا 900 خطوط سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو موصول ہوئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفے کی جانب عازم سفر ہوئے، یہاں تک کہ کربلا کے میدان میں پہنچ گئے۔
سات محرم کو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر پر پانی بند کردیا گیا۔ دریائے فرات ٹھاٹیں مارتا ہے اور وہاں سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا ان کا کوئی بھی لشکری پانی نہیں پی سکتا۔ فوجی فرات کے کناے موجود تھے۔ سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ پر پانی کی مکمل بندش کردی گئی۔ نو محرم کو شمر کربلا پہنچ گیا۔ سیدنا حضرت حسین ؓکی کچھ دیر کے لیے آنکھ لگی تو اٹھ کر اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ زینبؓ سے کہا کہ مجھے خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ تم ہم سے ملنے والے ہو۔
دس محرم کی صبح حُر نے یزیدی لشکر کو چھوڑ کر سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دشمن فوج کے سامنے خطبہ دیا۔ پہلے اہل بیت ؓکے مناقب بیان کیے، پھر اپنے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ بیان کیںاور فرمایا کہ ہم شبابِ اہلِ جنت ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت سیدہ فاطمة الزہرا ؓ او ر سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ تمہارے لیے کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دو۔ کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں تم مجھے قتل کررہے ہو۔ کیا میں نے کسی کا مال لوٹا یا کسی کو زخم لگایا؟‘ سیدنا حضرت حسین ؓنے ایک ایک کوفی کو نام لیکر پکارا اور کہا: اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھے تھے، کیا مجھے آنے کا نہیں بولا تھا، یہ لوگ یزیدی فوج میں موجود تھے۔ وہ لوگ مکر گئے۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ خطوط کے تھیلے عمر بن سعد اور شمر کو بھی دکھائے جو اُن کو لکھے گئے تھے۔ کنز العمال میں ابن عساکر روایت کرتے ہیں محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیتؓ کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔ (کنز العمال فضائل اہل بیت، قتل حسینؓ )
باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سپاہی ایک ایک کرکے اپنی بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ اہل بیت اطہار ؓمیں حضرت عباس کے بازو قلم کردیے گئے۔ حضرت قاسم حضرت علی اکبر شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ عون و محمد شہید ہوئے۔ پھر چھ ماہ کے حضرت علی اصغر کو حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر حلق میں تیر مار کر شہید کردیا گیا۔ حضرت ابوبکر بن حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے جو عبداللہ بن عقبہ غَنَوِی کے تیر کا نشانہ بنے۔ (الاخبار الطوال، ص379) قیدی بنائے جانے والے بچوں میں ایک چار سال کے شہزادے حضرت عُمَر بن حسن رحمة اللہ تعالیٰ علیہ تھے۔ (الاخبار الطوال، ص380) سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عُمَر نامی دو شہزادے تھے ایک نے کربلا میں شہادت پائی اور دوسرے قید ہوئے۔ (سوانح کربلا، ص 126 تا 127)
10 محرم کی شام پھیلنے لگی تھی۔ حضرت حسین ؓکے ساتھیوں نے میدان کربلا میں بڑی بہادری اور شجاعت دکھائی۔ اب آخری باری حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی آئی۔ حضرت حسینؓ میدان جنگ میں پہنچتے ہیں۔ سیدنا حضرت علی ؓکا شیر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ اور پٹکا باندھے سیدنا حضرت علی ؓکی ذوالفقار لیکر میدانِ کربلا میں پہنچا اور ایک ایک کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹنے لگا اور کربلا کی فضا نے وہ منظر دیکھا، تین دن کے بھوکے پیاسے کی جنگ دیکھی، علی ؓکے فرزند کی جنگ دیکھی، دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی۔ بالآخر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، حضرت سیدہ فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر، حضور کے نورنظر اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند، جنتی نوجوانوں کے سردار جام شہادت نوش فرما کر اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون !
مورخین میں سے خلیفہ ابن خیاط نے لکھا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت 10 محرم الحرام 61ھ بروز چہار شنبہ کو ہوئی اور حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت 10 محرم الحرام 61ھ بروز جمعة المبارک ہوئی۔ رضی اللہ عنہ!
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیل ؑ
