تحریر: مولانا محمد یونس الحسینی
اِسلامی تقویم کا پہلا مہینہ محرم الحرام اپنی عظمت و حرمت میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کا سب سے بابرکت اور عظیم دن یومِ عاشور یا عاشوراءیعنی دس محرم ہے۔ یومِ عاشور وہ دن ہے جو عظمت، فضیلت اور رحمت الٰہی سے معمور ہے۔ یہ دن جہاں تاریخِ انبیاءکی عظمتوں کا امین ہے وہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور تعلیمات کا بھی مظہر ہے۔
یومِ عاشور کو شریعتِ مطہرہ میں جو مقام حاصل ہے وہ محض ایک عام دن کا نہیں بلکہ روحانی بلندیوں کا حامل ہے۔یہ دن نہ صرف تاریخی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس میں پنہاں روحانی اثرات اور اس کی فضیلت بھی مسلمہ ہیں جن کا ذکر احادیثِ نبویہ میں جابجا ملتا ہے۔یہ دن نہ صرف کئی انبیائے کرام علیہم السلام کے اہم واقعات کا گواہ ہے بلکہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کو اجاگر فرمایا اور اُمت کو اس سے مستفید ہونے کی تلقین کی ہے۔ لفظ ’عاشور یا عاشوراء‘ عربی لفظ ’عاشر‘ یا عربی کے عدد عشرہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دسواں ہے۔ شرعی اصطلاح میں یوم عاشور سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے جو اِسلامی تاریخ میں کئی انقلابی اور روح پرور واقعات کا گواہ دن ہے۔ یہ دن اہلِ ایمان کے لیے باعثِ فضیلت و برکت ہے۔
یومِ عاشور کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ عاشور کو عظمت و برکت کا دن قرار دیا اور اس دن کے روزے کی فضیلت کو اپنی احادیث مبارکہ میں کئی بار بیان فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو یوم عاشور کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:یہ کیا ہے ؟انہوں نے کہا: یہ نیک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تم سے زیادہ قریب ہیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری)
اِسی طرح حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یومِ عاشورہ کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا“۔ (صحیح مسلم) یہ حدیث اس دن کی روحانی قدر و قیمت پر روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن کے روزے کی بدولت بندے کے پچھلے سال کے صغیرہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے اُمتِ محمدیہ کے لیے ایک خاص فضل، رب کریم کی رحمت اور اس دن کی عظمت کا مظہر ہے۔ یہ عظیم فضیلت ہمیں بتاتی ہے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنا محض نفل عبادت نہیں بلکہ یہ گناہوں کی معافی کا ایک ذریعہ اور اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے کاایک موقع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں فرمایا: اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا‘۔(صحیح مسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں فرمایا کہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے عاشوراء کے ساتھ ایک اور دن کا روزہ رکھا جائے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے فرماتے ہیںکہ ’یہود کی مخالفت کرو، یوم عاشور کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو‘۔ (مسند احمد)
علماء کرام نے اس حدیث کی روشنی میں فرمایا ہے کہ یوم عاشور (10 محرم) کا روزہ مستحب ہے۔ اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا افضل اور بہتر ہے تاکہ سنت کی تکمیل ہو، اُمت کی امتیازی شان ظاہر ہو اور یہود و نصاریٰ سے مشابہت نہ ہو۔ علماءکرام کی تحقیق کے مطابق یومِ عاشور کی فضیلت صرف روزے تک محدود نہیں بلکہ اس دن صدقہ و خیرات، ذکر و اذکار، قرآن کی تلاوت اور نفل عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ نیک اعمال کرنا، یتیموں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا اور اہلِ خانہ کے لیے وسعت کرنا بھی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر بن محمدؒ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ’جو شخص عاشور کے دن اپنے اہلِ خانہ پر فراخی کرے اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال وسعت فرماتا ہے‘۔ (شعب الایمان) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے مگر کئی اکابر اُمت نے اس پر عمل کیا اور اسے مستحب قرار دیا ہے۔ عاشوراء کا دن ابتدائے آفرینش سے ہی مختلف واقعات کا گواہ رہا ہے۔ ائمہ مفسرین، محدثین اور مورخین نے کتبِ تواریخ میں ذکر فرمایا ہے کہ یومِ عاشور کو اللہ تعالیٰ نے مختلف جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام اور اُن کی اُمتوں پر خاص کرم فرمایا اور انہیں عظیم انعامات و کامیابیاں عطا فرما کر یادگار بنایا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے جب توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اِسی دن اُن کی توبہ قبول فرمائی۔ طوفانِ نوح کے بعد جب زمین سکون پر آئی تو عاشوراءکے دن ہی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان سے محفوظ ہو کر جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرودنے جب آگ میں ڈالا تو عاشوراءکے دن ہی اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لیے گلزار بنایا۔ سب سے مشہور اور مستند واقعہ یہ ہے کہ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو اللہ نے فرعون کے ظلم سے نجات دی اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت غرق کردیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو اسی دن بیماری سے شفا ملی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعد اِسی دن بینائی واپس ملی۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات اسی دن ملی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اسی دن اٹھایا گیا۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر)ان تمام واقعات کا مرکز یومِ عاشور ہے جو اس دن کی روحانی عظمت اور ربانی کرم نوازی کا مظہر ہیں۔ یہ تمام واقعات اس دن کی قدر و منزلت کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ یومِ عاشور اللہ تعالیٰ کی نصرت، رحمت اور مدد کا دن ہے۔
یوم عاشور کی سب سے بڑی تاریخی اور ایمانی اہمیت اس واقعہ سے جُڑی ہے جو 61 ہجری کو کربلا میں پیش آیا۔ اسی دن جنت کا پھول، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما نے میدانِ کربلا میں اپنی جان، خاندان اور اصحاب کی عظیم قربانی دے کر ظلم و جبر کے خلاف علمِ حق بلند کیا۔ واقعہ کربلا یومِ عاشور کو ایک ایسا دائمی درس دے گیا جو رہتی دنیا تک حریت، وفاداری، صبر، استقلال اور دین پر قربانی کا استعارہ بن چکا ہے۔ یومِ عاشور کی تاریخی اہمیت کئی پہلووں پر محیط ہے جس کی فضیلت قرآن، سنت اور تاریخ سے واضح ہے۔
یہ دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرت و مدد، انبیاءکرام علیہم السلام کی استقامت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں تاریخ کے ان درخشاں اور پُرنور لمحوں سے جوڑتا ہے جو انسانیت کو حق، صبر، عدل اور قربانی کا درس دیتے ہیں۔ یہ دن فضیلتوں، رحمتوں اور سبق آموزی ، نجات، قربانی، حق کی فتح اور باطل کی شکست کا دن ہے۔ یہ تجدیدِ عہد کا دن ہے کہ ہم اللہ کی رضا، سنتِ رسول اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس دن کو غفلت میں ضائع نہ کریںبلکہ اس دن کی روحانی برکتوں سے بہرہ مند ہوں۔ اس دن خوب صدقہ و خیرات کریں ،عبادت، دعا، توبہ، روزہ اور ذکرالٰہی سے گزاریں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں، یہی یومِ عاشور کا حقیقی پیغام ہے۔
