رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
کل جمعة المبارک کے روز سے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کو مختلف سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں خان یونس، بیت حانون اور دیگر مقامات پر سنگین نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوئے اور کچھ کارروائیاں تادم تحریر جاری تھے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق کم از کم تین سیکورٹی واقعات پیش آئے جن میں سے ایک اب بھی جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ شمالی غزہ میں ایک آپریشنل حادثے کے دوران تین اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔ فوج کے مطابق یہ ہلاکتیں اُس وقت ہوئی جب دو انجینئرنگ گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ یہ حادثہ ایک جاری فوجی کارروائی کے دوران پیش آیا۔ اگرچہ بظاہر یہ ایک ”حادثہ“ قرار دیا گیا تاہم عسکری ماہرین کے نزدیک اس قسم کی واقعات سے فوج کی اندرونی تنظیمی کوتاہیوں اور جنگی دباو کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی غزہ پر زمینی یلغار کے دوران اب تک 72 اسرائیلی فوجی مختلف ’آپریشنل حادثات‘ میں مارے جا چکے ہیں۔ صرف مارچ 2024ء کے بعد سے 30 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے 21 کی ہلاکت کی وجہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے نصب کردہ دھماکا خیز آلات (IEDs) تھے۔
خان یونس میں شدید جھڑپیں
خان یونس شریف کے شمال میں ایک اہم سیکورٹی واقعہ پیش آیا ہے جس کے بعد اسرائیلی فوج نے فوری طور پر فضائی مدد طلب کی اور ہیلی کاپٹروں کی لینڈنگ ہوئی۔ الجزیرہ کے مطابق مذکورہ علاقے میں شدید جھڑپیں تاحال جاری ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے اس مقام پر بمباری شروع کردی ہے جبکہ توپ خانے کی گولہ باری بھی مسلسل جاری ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ خان یونس کے وسطی علاقے میں ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے دو میزائل فائر کیے۔ اس واقعے کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوجی سنسر شپ نے اس پر سخت میڈیا بلیک آوٹ نافذ کردیا۔ بعض ذرائع کے مطابق اس سیکورٹی واقعے کو مکمل طور پر قابو پانے میں فوج کو پانچ گھنٹے سے زائد وقت لگا۔ شمالی غزہ کے علاقے بیت حانون میں بھی ایک سیکورٹی واقعہ رپورٹ ہوا تاہم اس کی تفصیلات فی الحال محدود ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیت حانون پچھلے کئی ہفتوں سے اسرائیلی حملوں کی زد میں ہے جہاں مزاحمتی کارروائیوں کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔
فلسطینی مزاحمت کا ردعمل
فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز خان یونس میں قابض فوج کی گاڑیوں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ حالیہ ہفتوں کے دوران مزاحمت کاروں نے اسرائیلی افواج پر حملوں کی متعدد ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں سرنگوں، دھماکوں اور گھات لگا کر کیے گئے حملے شامل ہیں۔ یہ تمام کارروائیاں اسرائیل کی جاری نسل کشی کے جواب میں کی جارہی ہیں۔ مزاحمتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کے عوام کے دفاع کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنائیں گی، چاہے وہ قیمت کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو۔
غلافِ غزہ میں خطرے کی گھنٹیاں
ادھر اسرائیلی داخلی محاذ کی کمانڈ نے اطلاع دی ہے کہ غلافِ غزہ کے علاقوں میں آج دوبارہ خطرے کے سائرن بجائے گئے جو اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے راکٹ یا میزائل حملے کیے گئے ہیں۔قبل ازیں جمعرات کے روز بھی غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی کارروائیوں میں اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے قابض اسرائیلی افواج کے خلاف کئی منظم اور مربوط عسکری کارروائیاں انجام دیں، جن سے دشمن کی صفوں میں ہلچل اور بھاری جانی و مالی نقصان کی اطلاعات ہیں۔

سرایا القدس کے حملے
’سرایا القدس‘ (حرکتِ جہاد اِسلامی کا عسکری بازو) نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے خان یونس کے شمالی علاقے میں مسجد خضرہ کے قریب واقع اسرائیلی فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز کو میزائل سے نشانہ بنایا اور ’براہ راست ہدف‘ حاصل کیا۔ اِس حملے کو ایک اہم اسٹرٹیجک پیش قدمی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ کمانڈ سینٹرز دشمن کے رابطہ اور حکمت عملی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح سرایا القدس نے ایک اور حملے میں مشرقی غزہ کے علاقے ’حی التفاح‘ میں اسرائیلی بکتربند گاڑی کو جدید ’زلزال4‘ اینٹی ٹینک بم سے نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں کی ویڈیوز بھی تنظیم کے ٹیلیگرام چینل پر جاری کی گئیں جو مزاحمتی بیانیے کی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔
الشجاعیہ اور ’السطر الغربی‘ میں کارروائیاں
قبل ازیں سرایاالقدس کے مجاہدین نے الشجاعیہ کے ’مربع الھدی‘ علاقے میں ایک اسرائیلی بلڈوزر کو نصب شدہ بارودی سرنگ سے تباہ کیا۔ یہ علاقہ ان دنوں مسلسل اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے لیکن مزاحمتی قوتیں اس علاقے کو اپنی تکنیکی دفاعی حکمت عملی کا مرکز بنا چکی ہیں۔ سرایا القدس اور ’کتائب ابوعلی مصطفی‘ (عوامی محاذ کی عسکری شاخ) نے مشترکہ طور پر خان یونس کے شمالی علاقے ’السطر الغربی‘ میں موجود اسرائیلی فوجی دستوں کو 60 ملی میٹر مارٹر گولوں سے نشانہ بنایا جو کہ زمینی محاذ پر دشمن کو پیچھے دھکیلنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ کتائب القسام نے بتایا کہ انہوں نے خان یونس کے علاقے ’شارع المجمع الاسلامی‘ میں ایک اسرائیلی فوجی نفری بردار گاڑی (آرمرڈ پرسنل کیریئر) کو ’یاسین 105‘ میزائل سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی اور اسرائیلی ہیلی کاپٹر زخمیوں کو نکالنے کے لیے موقع پر اُترے۔
مزاحمتی بیانیے کا تسلسل
ان کارروائیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں جنگی دباو کے باوجود پوری حکمت عملی، ہم آہنگی اور جدید اسلحے کے استعمال کے ساتھ دشمن کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان کے حملے اب صرف دفاعی نوعیت کے نہیں بلکہ اس میں جارحانہ پہلو غالب ہے، جس کا مقصد اسرائیلی فوج کی رسد، نقل و حرکت اور کمان سسٹمز کو مفلوج کرنا ہے۔ مزاحمت نے حالیہ ہفتوں میں اپنے حملوں کی ویڈیوز بڑے پیمانے پر جاری کی ہیں جو اسرائیلی سوسائٹی پر نفسیاتی اثر ڈالنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق 18 مارچ 2024ء کے بعد سے 30 فوجی مارے جا چکے ہیں جن میں سے 21 دھماکا خیز آلات کا شکار بنے۔
یاد رہے کہ یہ تمام مزاحمتی کارروائیاں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک واضح ردعمل ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے جاری اجتماعی سزا، بمباری اور شہری آبادی پر حملوں کے نتیجے میں اب تک 192,000 سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ مزید 10,000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر اور قحط کا شکار ہوچکے ہیں۔ نسل کشی کی اس جنگ نے نہ صرف انسانی المیہ پیدا کیا بلکہ بین الاقوامی ضمیر کو بھی چیلنج کیا ہے۔ امریکا کی کھلی حمایت سے جاری اس جنگ میں فریقین کے درمیان طاقت کا توازن اگرچہ بظاہر اسرائیل کے حق میں نظر آتا ہے مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت نے اپنی جنگی صلاحیت، حکمت عملی اور استقامت سے قابض فوج کو پے در پے جھٹکے دیے ہیں۔ مزاحمتی کارروائیوں کی یہ لہر اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ محض ایک محصور علاقہ نہیں بلکہ ایک زندہ، منظم اور نظریاتی مزاحمت کا قلعہ ہے۔
آنے والے دنوں میں اگر اسرائیل کی عسکری ناکامیاں اِسی شدت سے جاری رہیں تو صہیونی سیاسی قیادت پر دباو بڑھے گا اور بین الاقوامی سطح پر بھی جنگ بندی اور سیاسی حل کی فضا مزید ابھر سکتی ہے۔ ان حملوں کے باعث اسرائیلی فوج کو اس وقت شدید انسانی، عسکری اور نفسیاتی دباو کا سامنا ہے۔ مسلسل آپریشنل حادثات، فوجی ہلاکتیں اور سیکورٹی نظام کی ناکامیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ طویل جنگی مشن نے فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو تباہ کردیا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مزاحمت نے اپنی حربی حکمتِ عملی اور اندرونی نظم و ضبط سے دجالی افواج کو بار بار چیلنج کیا ہے، خاص طور پر خان یونس اور جبالیا جیسے علاقوں میں۔ جنگ کے موجودہ مرحلے میں غزہ صرف ایک انسانی بحران کا مرکز ہی نہیں بلکہ اسرائیلی عسکری برتری کے لیے بھی ایک کھلا سوال بن چکا ہے۔ اگر یہی حالات برقرار رہے تو آنے والے دنوں میں اسرائیلی حکومت کو اندرونی سطح پر مزید دباو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔