سروہارا امباکر
عربوں کی عثمانیوں سے آزادی کے آزادی میں اہم کردار شریفِ مکہ حسین ابن علی کا تھا۔ ان کے ایک بیٹے مختصر مدت کے لیے حجاز کے بادشاہ بنے۔ ایک اردن کے، ایک عراق و شام کے۔ عرب بغاوت کا جھنڈا حسین کا تھا۔ نئے علاقوں کے جھنڈے کا یہی ڈیزائن برقرار رہا۔ انھوں نے اس جھنڈے پر اردن کے لیے ایک، عراق کے لیے دو اور شام کے لیے تین ستاروں کا اضافہ کیا۔
حسین مکہ کے آخری امیر تھے۔ (آج یہ علاقہ ان کے حریف خاندان السعود کے پاس ہے)۔ ان کا خواب تھا کہ ایک عظیم عرب ریاست قائم ہو گی جو کہ حلب سے عدن تک پھیلی ہو گی۔
انھوں نے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے کپٹین لارنس کے ساتھ رفاقت بنائی اور عثمانیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن حسین کا اپنا خیال تھا جبکہ برطانیہ اور فرانس کا اپنا۔ حسین خود کو عرب کا بادشاہ کہتے تھے لیکن برٹش نے انھیں صرف حجاز کے بادشاہ کے طور پر تسلیم کیا۔ برٹش کو عرب ریاست میں دلچسپی نہیں تھی۔ برطانیہ کے سائیکس اور فرانس کے پیکو نے آپس میں معاہدہ کیا اور اس خطے کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس معاہدے سے پہلے وہ عرب قبائل کو عثمانیوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کر چکے تھے۔ حسین کا خواب ادھورا رہ گیا۔
شریف نے پہلے تو 1919ء کے معاہدے سے انکار کیا۔ نہ ہی وہ عراق کے بارے میں برطانیہ سے معاہدے پر دستخط کو تیار تھے۔ سائیکس پیکو معاہدہ عرب ریاست کے خواب کا خاتمہ ہوتا۔
برطانیہ کی حمایت کے بغیر حسین کمزور تھے۔ اُن کے عرب ہمسائیوں نے یہ کمزوری بھانپ لی اور موقع دیکھ لیا۔ یہ ہمسائے السعود قبائل تھے جن کا نجد پر کنٹرول تھا۔ انھوں نے عرب بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا۔ برٹش ہاشمی حکمران سے تھک چکے تھے اور ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ چکے تھے، سو اب فیصلہ ہو گیا۔
عبدالعزیز بن سعود نے حسین کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیا کہ وہ نجد سے مکہ آنے والے حاجیوں کو روکتے ہیں۔ اور اس شکایت کی بنیاد پر حملہ کر دیا اور یوں چند ہفتوں ہی میں شہر فتح کر لیا۔ حسین نے تخت چھوڑ دیا اور جلاوطن ہو کر قبرص چلے گئے۔ 1925ء تک عبدالعزیز پورے حجاز پر قبضہ کر چکے تھے۔
عبدالعزیز کے سپورٹر اس بات کے خواہاں تھے کہ اس قبضے کو بڑھایا جائے۔ اردن، کویت اور عراق کو فتح کیا جائے لیکن عبدالعزیز عالمی سیاست سے زیادہ اچھی طرح کھیلے۔ انھیں معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے برٹش براہ راست مخالفت میں آجائیں گے۔ 1927ء میں انھوں نے لندن سے ڈیل کی جس میں حجاز اور نجد کی بادشاہت ان کے پاس آئی۔ پانچ سال بعد 1932ء میں انھوں نے ان دونوں ریاستوں کو ایک ملک کے طور پر ملا دیا۔ یہ سعودی عرب تھا۔
چاند تارہ یا سبز، سفید، سیاہ:
عرب دنیا میں الجیریا اور تیونس ایسے ممالک ہیں جن کے جھنڈوں پر ستارہ اور ہلال ہیں۔ انھوں نے عرب کے بجائے عثمانی اثر لیا ہے۔ یہ دونوں شمالی افریقہ کے ممالک ہیں جہاں پر عرب اثر کم ہے۔ شمالی افریقہ کی شناخت اور ثقافت زیادہ مضبوط ہے۔ الجیریا کے جھنڈے میں ہلال کا دائرہ زیادہ مکمل ہے۔ یہ الجیریا میں خوش قسمتی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ تیونس کا جھنڈا ترک جھنڈے سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اس قدر زیادہ کہ جب مصری حکومت نے 2014ء میں جب ترکیہ کے خلاف مظاہروں کا بندوبست کیا تو اس دوران کئی بار غلطی سے تیونس کا جھنڈا جلا دیا جاتا۔
٭٭
اردن نے عرب جھنڈا اپنایا۔ اس میں ہاشمیوں کی سرخ مثلث میں ایک ستارے کا اضافہ تھا۔ اس ستارے کے سات کونے ہیں۔ اس کی وجہ سورہ فاتحہ کی سات آیات ہیں اور اردن کا دارالحکومت سات پہاڑیوں پر ہے۔ یہ کونے اس کی علامت ہیں۔
سرخ مثلث اس بات کی بھی علامت ہے کہ بنو ہاشم اردن کے تخت پر ہیں۔ اردن کی تقریبا نصف آبادی فلسطینی ہے اس لیے یہ معلوم نہیں کہ شاہی خاندان سے عوام کی وفاداری کتنی مضبوط ہے۔
ابتدا میں خیال تھا کہ فلسطین بھی اردن کا حصہ ہو گا۔ فلسطین کا جھنڈا اردن جیسا ہی ہے۔ صرف یہ ستارہ اس میں نہیں ہے۔
ایسے رنگ ہمیں دیگر عرب جھنڈوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
آج کے جدید پرچموں میں اردن اور فلسطین کے علاوہ عراق، متحدہ عرب امارات، سوڈان، مصر، سیریا (شام)، یمن یا کویت کے پرچم عرب بغاوت کے پرچم کی بنیاد پر ہیں۔
عرب مسلمانوں کے رنگ اور علامات صرف ان علاقوں تک محدود نہیں رہیں۔ یہ غیر عرب ممالک اور کلچر تک بھی پھیلیں۔ چاند تارہ، عربی رسم الخط اور عرب رنگ ہمیں عرب ممالک سے باہر کے جھنڈوں میں ملتے ہیں۔