وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب
اگلے دن ایک فون آیا۔ معلوم ہوا کہ وزیر صاحب کے سیکرٹری بات کررہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ انعام صاحب! کیا بات ہے،آپ آئے نہیں،کوئی خفگی ہے ہم سے۔ میں نے کہا کہ بھائی میرا کوئی کام ہوتا تو میں آتا۔ کام وزیر صاحب کا ہے اور حاضر ہونے کے لیے مجھے کہاجارہا ہے۔
وہ کہنے لگے کہ یہ تو آپ کی عزت افزائی ہے کہ وزیر صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے ان سے کوئی سند یا سرٹیفیکیٹ نہیں چاہیے۔ مجھے جس سے سند چاہیے وہ روزانہ پانچ مرتبہ مجھے اپنے گھر بلا کر عزتوں سے نوازتا ہے، وہی عزت میرے لیے کافی ہے۔ آپ انھیں میراجواب سنا دیں۔
کچھ دیر بعد پھر فون کی گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اب وزیر صاحب خود بات کررہے ہیں۔ کہنے لگے کہ آپ کو میرے پاس آنے میں کیا پریشانی ہے؟ میں آپ کے لیے گاڑی بھیج رہا ہوں۔
میں نے جواب دیا کہ گاڑی تو اس وقت بھیجیں جب میں آنے کے لیے تیار بھی ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں وزیر ہوں۔ مجھے درجنوں کام ہوتے ہیں۔ اگر آپ میرے پاس آجائیں گے تو کیا فرق پڑ جائے گا؟
میں نے کہا کہ آپ کام کی نوعیت بتادیں، اُس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ مجھے آنا چاہیے یا نہیں؟ کہنے لگے کہ دراصل میں اپنی بیوی اور بیٹی کو مارشل آرٹ سکھانا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ سے بہتر کوئی استادہمارے ملک میں موجود نہیں ہے، اس لیے آپ کو اپنے پاس بلارہاہوں تاکہ معاملات طے کیے جاسکیں۔
میں نے سوال کیا کہ یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی کہ میں آپ کے گھر سکھانے کے لیے آجاؤں گا؟
اس نے کہا کہ ہم آپ کو بہت معقول معاوضہ دیں گے۔ میں ان سے کہا کہ میں کسی کے گھر آکر نہیں سکھاتا۔ وہ کہنے لگے اچھا میں ہی آپ کے پاس آرہا ہوں، مل کر با ت کرتے ہیں۔
کچھ ہی دیر بعد کلب کے چاروں طرف پولیس آگئی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ کلب کو پولیس نے گھیر لیا ہے اور کافی بڑے افسران پہنچے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگرکوئی میرا پوچھے تو بتادینا کہ دفتر میں ہیں۔ جسے ملنا ہے دفتر میں آکر ملاقات کرلے۔
کچھ دیر بعد وزیر صاحب دو تین افسروں کے ہمراہ آفس میں آگئے۔ میں نے کرسی سے اٹھ کر اُن سے ہاتھ ملایا اور انھیں بیٹھنے کی دعوت دی۔ انھوں نے بیٹھنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں بہت مصروف ہوں، بس آ پ سے یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ کل سے میرے گھر پہنچ رہے ہیں یا پرسوں سے؟
میں نے جواب دیاکہ خواتین کو سکھانے کے لیے کوئی خاتون ہونی چاہیے۔ وزیر صاحب نے کہا کہ آپ جو ڈیمانڈ کریں گے،آپ کو ملے گا، ہمارے تعلقات سے بھی آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ میں نے انھیں جواب دیاکہ میں خواتین تو کیا چھوٹی لڑکیوں کو بھی نہیں سکھاتا۔ ہمارے اس کام میں شاگردوں کے ساتھ محنت کرنا پڑی ہے، زور آزمائی ہوتی ہے، ہاتھ لگانا پڑتاہے۔ میں نامحرم کو کیسے ہاتھ لگا سکتا ہوں؟
وہ کہنے لگے کہ شاگرد تو اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔
میں نے جواب دیا کہ میں بھی شاگردوں کو اولاد ہی کی طرح سمجھتا ہوں لیکن خواتین کو سکھاتا ہی نہیں اور نہ ہی کسی کے گھر سکھانے جاتاہوں۔ میں آپ سے صرف معذرت کرسکتا ہوں۔
وزیر صاحب کہنے لگے کہ لگتاہے کہ تم مجھ سے واقف نہیں ہو۔ میں صرف وزیر نہیں اوربھی بہت کچھ ہوں۔ یہ انکار مہنگا پڑے گا۔ وزیر صاحب کی بات سن کر مجھے غصہ آگیا۔
میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں؟
اُس نے پوچھا: ’’کون ہو تم؟‘‘
میں نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہ میں اس کا بریگیڈیئر ہوں، تم جیسے ایک ہزار بھی مل کر میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا۔
بعد میں اس وزیر نے میرے خلاف کیا اقدام کیا۔اس متعلق مجھے کچھ شبہ ہے لیکن یقین نہیں ہے، اس لیے میں اس پر الزام عائد نہیں کروں گا۔ بہرحال اس واقعے کے کچھ عرصے بعد مجھے ایک واقعے میں کافی تکلیف اٹھانا پڑی۔ میں زخمی ہوگیا اور مجھے دل کی بڑی سرجری برداشت کرنا پڑی۔
انسان کا جسم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس جسم میں بہت سے خزانے پوشیدہ ہیں۔ جو اِن خزانوں کی قدر کرلیتاہے، وہ اپنے جسم کو بہت سے اچھے کاموں میں استعمال کرتا ہے، اسے پاکیزہ اور صاف، ستھرا رکھتاہے اور اس کی حفاظت کرتاہے۔ بہت سے لوگ اچھے خاصے صحت مند ہوتے ہیں۔ ان کے بدن میں قوت اور طاقت ہوتی ہے۔ وہ اچھا کھاتے پیتے ہیں، لیکن وہ اپنے جسم کی قدر نہیں کرتے، بس اس پر اتراتے رہتے ہیں یا بہت ہوا تو باڈی بلڈنگ شروع کردیتے ہیں اور شو مارتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اِس جسم کی قدر یہ ہے کہ اس سے دوسروں کی مدد کی جائے۔ اسے برائیوں سے اور غلط کاموں سے بچایا جائے اور اسے اللہ کی رضامندی کا ذریعہ بنایاجائے۔
ایک مرتبہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خاتون اپنے بیٹے کو لے کر میرے پاس آئیں۔ وہ بارہ تیرہ برس کابہت پیار ا سا لڑکا تھا لیکن اس کی ایک ٹانگ پولیو کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی تھی۔ اس کی والد ہ کہنے لگیں کہ میرے دو ہی بیٹے ہیں۔ ایک تو ٹھیک ہے لیکن یہ بچہ پولیو کی وجہ سے معذور ہوگیا ہے تو میں اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتی ہوں۔ لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں اور یہ اداس ہوتا رہتاہے۔ میرے پاس پیسہ ہوتا تو میں اس کا علاج کرواتی یا کوئی حل تلاش کرتی، لیکن ہم متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ معقول انداز میں گزربسرکررہے ہیں لیکن اس بچے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ مجھے کسی ڈاکٹر نے آپ کے پاس لانے کا مشورہ دیا ہے۔ بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ براہِ کرم میرے بچے کے لیے کچھ کیجیے۔
میں نے اس بچے کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیوں میں اداسی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی والدہ سے کہا کہ بہن! اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے، انسان کے بس میں تو صرف کوشش ہی ہے۔ نتیجہ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہوتاہے، اس لیے آپ دعا کریں، میں اس بچے کے لیے جو بھی کرسکوں گا، ضرور کروں گا۔ یہ بہت ہمت والا اور سمجھ دار لڑکا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔
پھر میں نے اس لڑکے سے کہا کہ آپ جاکر کلاس دیکھیں۔ اگر پسند آئے تو میرے پاس آجائیں۔ میں آپ کو داخلہ دے دیتا ہوں۔ وردی لے جائیں۔ کل سے کلاس میں حاضر ہوجائیں۔ اگلے دن وہ لڑکا کلاس میں پہنچ گیا۔ میں نے ابتدائی چیزیں خود اسے سکھائیں۔ وہ بہت شوق سے سیکھ رہاتھا۔ میں نے اسے سمجھادیاکہ تم یوں سمجھو، ایک ٹانگ کسی وجہ سے زخمی ہوگئی ہے، فی الحال تم اسے استعمال نہیں کرسکتے۔ ہمیں بھی اس طرح کی چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ اس ٹانگ کو تم بھول جاؤ اور پوری کوشش کروکہ ایک ٹانگ اور دونوں ہاتھوں سے جو بھی تم کرسکتے ہو کرو۔
اس نے میری بات مان لی اور جو ٹانگ وہ ناکارہ سمجھ رہا تھا، اسے ذہن سے نکال کر محنت کرنے لگا۔
لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انسان کی کمزوری ہی اس کی طاقت بن جاتی ہے اور اس کی طاقت اس کی کمزوری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ میں نے اس لڑکے کی کمزور ٹانگ پر محنت کرنے کا سوچا۔ جب کلاس ختم ہوجاتی تو میں اسے الگ سے بلا کر سمجھاتا کہ کس طرح تم اس کمزور ٹانگ کو اپنی طاقت بنا سکتے ہو۔
اس کی ٹانگ کے اگلے حصے میں چونکہ رگیں سوکھ گئی تھی، اِس لیے وہاں درد اور چوٹ کا احساس بہت کم ہوتا تھا۔ ٹانگ کا پچھلا حصہ البتہ ٹھیک تھا۔ میں نے اسے کچھ خاص وزرشیں سکھائیں جن کی مدد سے اس کی ٹانگ کا درست حصہ اچھی طرح کام کرنے لگا اور وہ اس لٹکتی ہوئی ٹانگ سے بھی ضرب لگانا سیکھ گیا۔
اُس لڑکے نے تقریباً دو بر س محنت کی۔ وہ بہت اچھے دل کا لڑکا تھا۔ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میں اسے جو بھی سکھاتا وہ توجہ اور دھیان سے سیکھتا۔ دوسال بعد وہ بلیو بیلٹ سے یلو بیلٹ پر چلا گیا۔ میں نے ایک مقابلے کے لیے اسے اپنے کلب کی ٹیم میں شریک کرلیا۔ منتظمین نے اعتراض کیا کہ یہ معذور ہے، اسے مقابلوں میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے؟
میں نے جواب دیا کہ آپ اسے شریک کرلیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ وہ ہار جائے گا لیکن اسے تجربہ حاصل ہوجائے گا۔
جب وہ مقابلے کے لیے اتر اتو میں نے اسے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، بس تم ہمت سے کام لیتے ہوئے کوشش کرنا اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا۔
وہ بڑی ہمت او ر حوصلے کے ساتھ مقابلے کے لیے اترا۔ سب لوگوں نے اس کے حوصلے کی داد دی۔ وہ تیزی سے نقل و حرکت نہیں کرسکتاتھا، میں نے اسے اپنی جگہ کھڑے رہ کرلڑنے کا گر سکھا دیا تھا۔ وہ اپنی درست ٹانگ پر سارا وزن ڈال کر کھڑا رہا اور حریف پر مکے برساتا رہا۔
اس کے مخالف کا خیال تھا کہ وہ ٹانگ سے ضرب لگا ہی نہیں سکتا لیکن اُس لڑکے نے اپنی وہی لٹکتی ہوئی ٹانگ اتنی قوت سے ماری کہ اس کا مدمقابل ناک آٹ ہوگیا۔
حاضرین حیران تھے۔ کسی کو امیدنہیں تھی کہ وہ لڑکا فائٹ جیت سکے گا۔ اس کے بعد اس نے اگلے دو مقابلے بھی اسی تیکنیک سے جیت لیے۔ آخری مقابلے میں وہ کامیاب نہ ہوسکا لیکن پھر بھی بہت حوصلے سے لڑا۔ میں نے سب کے سامنے اسے گرین بیلٹ دینے کااعلان کیا اور سب کے سامنے اسے گرین بیلٹ پہنائی۔ خوشی سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ پہلے دن میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کی آنکھوں میں ادسی چھائی ہوئی تھی۔ آج اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں ایک بچے کے کام آیا۔ (جاری ہے)
دو باتیں
تحریر: اشتیاق احمد رحمہ اللہ
السلام علیکم ورحم اللہ وبرکاتہٗ:
فون کی گھنٹی بجی، فون پروفیسر محمد اسلم بیگ صاحب کا تھا… کہنے لگے… آپ کی بیماری کا پتا چلا، بہت پریشانی ہوئی… آپ یہ بتائیں… ڈائیوو سے جھنگ آنا ہو تو کہاں اتریں گے…؟
میں فوراً سمجھ گیا، اُن سے گویا ہوا:
’’میں الحمدللہ پہلے سے بہت بہتر ہوں، اسلام آباد سے جھنگ کا سفر بہت لمبا ہے، تقریباً پانچ گھنٹے لگتے ہیں… لہٰذا آپ اگر جھنگ آنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو نہ آئیں… میرے لیے اتنی تکلیف نہ کریں۔‘‘
میرے خاموش ہونے پر انھوں نے کہا:
’’آپ سے میں تو بس یہ پوچھ رہا تھا کہ ڈائیوو سے جھنگ آنا ہو تو کہاں اترتے ہیں، تاکہ کبھی آنا ہوجائے تو معلومات تو ہوں۔‘‘
اس پر میں نے انھیں بتایا کہ جھنگ میں ڈائیووکا باقاعدہ ٹرمینل ہے… وہ وہیں آپ کو اتاریں گے، لیکن میں ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ زحمت نہ کریں۔
وہ ہنس دیے، اور کہنے لگے… کبھی تو ہم آئیں گے ہی… بات ختم ہوگئی… چند منٹ بعد میں نے اچانک خوف محسوس کیا کہ کہیں وہ آنے کا ارادہ نہ کر چکے ہوں… ایک تو اتنی زحمت کریں گے، دوسرے مجھ میں اتنی کمزوری واقع ہوچکی ہے کہ ان کی خدمت تو مجھ سے ہو نہیں سکے گی… لہٰذا مزہ کیا آئے گا… اس خوف کی بنیاد پر میں نے انھیں فون کیا اور ان سے یہ الفاظ کہے:
’’میں خوف محسوس کررہا ہوں کہ کہیں آپ جھنگ کا پروگرام نہ بنا چکے ہوں… میری درخواست ہے… میں بہت بیمارہوں… بہت کمزوری محسوس کر رہا ہوں، ایسی حالت میں آپ کی کیا مہمان نوازی کر سکوں گا… صحت ہوجائے تو پھر شوق سے آئیے گا… آپ کے ساتھ کچھ وقت تو گزار سکوں گا۔‘‘
میری بات سن کر پروفیسر صاحب ہنس دیے اور اتنا کہہ کر فون بند کر دیا:
’’آپ فکر مند نہ ہوں۔‘‘
ان کے اس جملے سے میں مطمئن ہوگیا کہ وہ آج آنے کا پروگرام نہیں رکھتے… ویسے ہی معلومات لے رہے تھے۔
اس فون کے تقریباً چار گھنٹے بعد ان کا فون موصول ہوا، کہہ رہے تھے:
’’ہم جھنگ کے قریب پہنچ چکے ہیں… اور جب آپ نے فون کیا تھا، اس وقت تو ہم روانہ ہوچکے تھے… اب ہم آدھ گھنٹے تک آپ کے پاس ہوں گے۔‘‘
میری سٹی گم… اس حالت میں بستر سے اٹھناپڑا… بچوں کا اسلام والا کمرہ دس دن سے بند پڑا تھا… بے ترتیبی کا ایک عالم تھا… اسے ترتیب دیتے دیتے ان کا فون پھر آگیا… کہہ رہے تھے… ہم آپ کے گھر کے قریب پہنچ چکے ہیں… بہت حیرت ہوئی… باہر نکلا تو واقعی گھر کے باہر پہنچ چکے تھے… ان کے بیٹے اشرف محمود صاحب ساتھ تھے… خیر… اُن کا استقبال کیا، کمرے میں لایا… انھیںپانی پلایا… کہنے لگے، عصر کی نماز پڑھ لیں، پھر ہم واپس جائیں گے… کیونکہ ساڑھے چھے بجے کی ہماری ٹکٹیں بک ہیں… یہ رہے ٹکٹ…!
میں دھک سے رہ گیا… زندگی میں اِس قدر خلوص کا نظارہ میں پہلی بار دیکھ رہا تھا… میں نے سوچا، یہ نظارہ آپ کو بھی دکھا دوں!
٭٭٭