تحریر:پروفیسر محمد اسلم بیگ
پروفیسر ڈاکٹر محمود اشرف
’’ابھی اشتیاق صاحب کی عیادت کرنے جھنگ چلیں بابا؟‘‘
’’اسلام آباد سے تقریبا پانچ گھنٹے کا سفر ہے بیٹا!‘‘
بابا نے ناقابلِ یقین لیکن خوشگوار حیرت سے جواب دیا۔
’’بس جائیں گے اور تھوڑی دیر میں اُن کی طبیعت کا پوچھ کر آ جائیں گے اور اس ملاقات کی خوشی سے ہو سکتا ہے اُن کی طبیعت بہتر ہو جائے۔‘‘
بیٹے نے فلسفہ بگھارتے ہوئے کہا۔
’’ان کو اطلاع نہ دے دیں؟‘‘
بابا نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’بابا!ہم یہ سوچ کر جا رہے ہیں کہ اگر گھر پر ہوئے تو ملاقات ہو جائے گی، اور اگر نہ ہوئے تو کوئی بات نہیں۔ بالکل ایسے جیسے کوئی ساتھ والے گھر کا پڑوسی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ اگر انھیں پہلے سے اطلاع دے دی تو آپ کا ان سے ایسا تعلق ہے کہ وہ یقیناکچھ اہتمام کریں گے اور ہم انھیں اس تکلف سے پہنچنے والی تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں۔‘‘
بیٹے نے وضاحت کی۔
’’چلو قریب پہنچ کر بتا دیں گے تاکہ انھیں اہتمام کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور بالکل بغیر اطلاع دیے مہمان بننے والی کسی پریشان کن صورتحال سے بھی وہ محفوظ رہیں۔‘‘
’’واہ، بہت خوب، بابا! بس جانا اور آنا۔‘‘
’’یعنی یہ تو کمانڈو ایکشن ہو گا، اشتیاق صاحب کے ناول کی طرح۔‘‘
بابا اپنی دیرینہ خواہش پوری ہوتے دیکھ کر پرجوش لہجے میں بولے۔
ابھی چند روز پہلے ہی حضرت اشتیاق احمد دل کے دورے سے صحت یاب ہوئے تھے اور آج ہم اُن کی عیادت کے لیے جھنگ کی جانب عازمِ سفر تھے۔ ڈائیوو بس پر پلک جھپکتے اسلام آباد سے جھنگ کیسے پہنچے بالکل پتا نہ چلا۔
دروازے پر دستک دی۔
’’یہ کیا…؟‘‘
ہم دھک سے رہ گئے۔ہمارے ممدوح و محبوب حضرت اشتیاق احمد چہرے پر حیرت و مسرت لیے بنفسِ نفیس خود دروازہ کھول رہے تھے۔
بلاتوقف ہم ایک ایک کر کے بغل گیر ہوئے۔ سب کی خواہش تھی کہ یہ معانقہ طویل تر ہو لیکن بہرحال آداب کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا تھا۔ ہمارے اس طرح اچانک آدھمکنے کے باوجود حضرت اتنی اپنائیت اور محبت بھری دل جوئی سے ملے، گویا سوتے ہوئے بچوں کے اچانک اٹھ جانے پر ماں نے انھیں فوراً گلے لگا لیا ہو۔ ہم اُن کی عیادت کرنا چاہتے تھے لیکن لگ رہا تھا کہ الٹا وہ ہماری عیادت کر رہے ہیں اور گویا بزبانِ حال اپنے من موہنے انداز میں کہہ رہے ہیں:
’’کیا حال ہے جی؟…یوں اچانک؟ سب خیریت تو ہے ناں!آپ ٹھیک تو ہیں ناں؟‘‘
ہم نے غروبِ آفتاب کا وقت پوچھتے ہی چند منٹ میں اپنی واپسی کی اطلاع دی تاکہ وہ آرام کر سکیں، پھر تو جیسے ماں کی مامتا تڑپ ہی اٹھی ہو۔ بے چین ہو گئے:
’’ابھی…؟ یہ نہیں ہو سکتا، آپ اتنی دور سے آئے ہیں، تین دن تو ٹھہرنا ہو گا۔
’’اللہ اکبر…! دل میں طوفان اٹھ رہے تھے۔ تین دن! کاش ہم ہمیشہ کے لیے حضرت کے ساتھ یہیں اُن کی خدمت میں رہ جاتے، لیکن دل تو نادان ہے، اسے کیا پتا کہ یہاں کوئی کسی کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا، ہمیں روکتے روکتے وہ خود ایک دن کہیں دور چل دیے، نہ واپس آنے کے لیے۔ لگتا تھا کہ ان کا جسم مٹی کی بجائے محبت سے گندھا ہو۔ اُن کی وارفتگی ناقابلِ بیان تھی۔ نقاہت کے باعث وہ مسجد نہیں جا سکتے تھے۔ ہم نے بھی گھر میں اُن کی امامت میں نمازِ عصر ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اتنی دیر میں ان کے ایک بیٹے اندر سے چائے اور کچھ لوازمات لے آئے۔
’’آپ نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ آپ کے شایانِ شان کچھ اہتمام کرتے، جو کچھ گھر میں تھا حاضر ہے، بسم اللہ کیجیے۔‘‘
ہمیں ان کی خوشی اور حکم کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا۔ اب وہ کتنے خوش تھے! ان کی خوشی میں حیران کن طور پر بے چینی اور سکون اکٹھے موجود تھے۔
ہم سب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وقت کو روک دیں اور یہ حسین لمحات کبھی بھی ختم نہ ہوں لیکن دنیا کی ہر ملاقات کے بعد جدائی ہے۔ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اِس بار ہم نے بھرپور اجازت مانگی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
ہم نے اُن سے آرام کی بھرپور درخواست کی۔ بوجھل دل کے ساتھ وہ کچھ نرم پڑتے دکھائی دیے۔ متوقع جدائی کے آنسو پوری قوت سے چھپانے کے لیے، اپنے چہروں پرہم تینوں نے مصنوعی مسکراہٹیں سجائی ہوئی تھی لیکن حضرت جہاں دیدہ بھی تھے اور مردم شناس بھی، پھر اپنے قریبی ساتھیوں کو وہ بخوبی جانتے تھے۔ ہم تینوں نے اِن چند محمود لمحات میں دل ہی دل میں ایک دوسرے سے ڈھیر ساری باتیں کر لی تھیں۔ الوداعی بغل گیر ہوئے، دل سے دل ملنے اور سینے دبنے کے دباؤ سے آنکھیں چھلک ہی پڑیں۔ دل اور آنکھوں کا درمیانی فاصلہ بہت کم ہے ناں! حضرت کا چہرہ ہماری آنکھوں میں بالکل دھندلا گیا، جیسے کسی انتہائی کمزور نظر والے کا چشمہ گر گیا ہو۔ آخری چیز جو یاد رہ گئی وہ آنسوؤں بھری مسکراہٹیں تھیں اور ان کا یہ الوداعی جملہ:’’آئندہ چند دنوں میں آنے والی ’’دو باتیں‘‘ آپ کے اس پرخلوص دورے کی گواہ بن جائیں گی۔‘‘
یہ ملاقات بھی مختصر رہی اور حضرت سے ہمارا مجموعی دنیاوی تعلق بھی مختصر لیکن پراثر رہا! حضرت سے یہ ہماری دوسری ملاقات تھی جو ستمبر ۲۰۱۵ء کے آخری دنوں میں ہوئی۔
اور پھر ۲۶ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو وہ تاریخی دو باتیں شمارہ ۶۸۹کی زینت بن کر ایک بار پھر ہمیں رلا گئیں۔
آپ بھی دل تھام کر یہ دو باتیں ملاحظہ فرمائیں: