Cup of Tea

پیالیاں

مسز اکرم صدیقی۔ میانوالی

’’میرا گائوں مثالی گائوں ہے۔ یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہر طرف امن و امان ہے۔‘‘ گائوں کا سردار کہہ رہاتھا اور ہم حیران ہو کر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ہم اس وقت گوادر کے ایک دور دراز گائوں میں سردار کے ڈیرے پر چٹائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

’’جناب! ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘ میں بول اٹھا۔
’’ممکن ہے،ممکن ہے،آئو میں تمھیں گائوں کی سیر کروائوں۔‘‘

ہم سردار کے ساتھ گائوں کی سیر کو نکلے۔جیسے جیسے ہم گائوں کی گلیاں، بازار، کھیتوں کی ہریالی اور صاف ستھرے خوب صورت لوگ، ہنستے مسکراتے ہوئے بچے دیکھتے گئے تو ہمیں یقین کرنا ہی پڑا کہ سردار ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سردار کہہ رہا تھا:

’’بیٹا!سب سے بڑا مسئلہ مفلسی کا تھا، دیکھو یہاں کوئی شخص آوارہ نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام میں مصروف ہے۔‘‘
’’مگر جناب! فصلوں کو نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ کاروبارمیں گھاٹا ہونا بھی زندگی کا حصہ ہے۔ کسی خاندان پر اچانک قدرتی افتاد بھی آسکتی ہے اور یہ سب کچھ قانون قدرت ہے، اس صورت میں مثالی گائوں کی تصویر بگڑ سکتی ہے۔‘‘

’’ہاں بیٹے! ایسا ہوسکتا ہے نہیں بلکہ ایسا ہوتا ہے۔‘‘ سردار بولا۔
’’پھر آپ اس نقصان کو کیسے پورا کرتے ہیں؟‘‘ میرے دوست علی نے سوال کیا۔

’’آئو میں تمہیں بتاتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر سردار ہمیں ایک مکان میں لایا جس کے ایک کمرے میں پیالیاں رکھی تھیں جو بہت زیادہ تھیں۔
’’ہم وہ نقصان ان پیالیوں سے دور کرتے ہیں۔‘‘ سردار مسکراتے ہوئے بولا۔

’’پیالیوں سے نقصان دور کرتے ہیں؟‘‘
ہم نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔

’’ہاں بیٹے! جب کسی کا نقصان ہوتا ہے تو گائوں کے معززین کی شوریٰ کمیٹی اس کی تحقیق کرتی ہے اور اگر واقعی اس کا نقصان ہوا ہے تو گائوں کے سب افراد کی دعوت کی جاتی ہے اور جب وہ اکٹھے ہوجاتے ہیں تو انھیں پیالیوں میں چائے پیش کی جاتی ہے۔ ہر شخص چائے پینے کے بعد حسب توفیق پیالی کے نیچے روپے رکھتا ہے اور بہت آسانی سے اس نقصان کا ازالہ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’واہ!‘‘ ہم سب بول اٹھے۔

’’ہم لوگ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ دینی احکامات پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں ہمیشہ ا سی طرح پیار و محبت کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

جب ہم اس گائوں سے رخصت ہو کر اپنے شہر ’’کراچی‘‘ کی طرف جارہے تھے تو ہمارے دل سے یہ دعائیں نکل رہی تھیں کہ کاش ہمارا شہر کراچی بلکہ پاکستان کا ہر شہر اور ہر گھر ایسا ہی مثالی بن جائے۔
٭٭٭

یہ شان تھی اللہ والوں کی

حضرت ابراہیم بن ادھم ابتدا میں بلخ کے بادشاہ تھے۔ ایک رات آپ محل میں محوِ خواب تھے کہ آدھی رات کے وقت اچانک آپ کی آنکھ کھل گئی۔معلوم ہوا کہ کوئی شخص محل کی چھت پر ٹہل رہا ہے۔ آپ نے آواز دی: ’’تو کون ہے؟ اور یہاں اس وقت کیا کررہا ہے؟‘‘

اس شخص نے جواب دیا:
’’میں آپ کا دوست ہوں اور یہاں آپ کا اونٹ تلاش کررہا ہوں۔‘‘

آپ نے یہ سن کر فرمایا:
’’بھلا یہ ممکن ہے کہ شاہی محل کی چھت پر اونٹ چڑھ جائے؟‘‘

اس شخص نے جواباً کہا:
’’تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ عیش وعشرت میں خدا مل جائے۔‘‘

دوسرے ہی دن آپ نے تختِ حکومت کو لات ماری اور فقیرانہ لباس پہن کر شہرسے باہر نکل گئے۔

حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ آپ گروہ فقراء کے تمام علوم کی کنجی ہیں۔

(مرسلہ: حفصہ حنیف۔ہنگورا)
٭٭٭