Chair By PNGTree.Com

کاف سے کرسی

Photo : PNGTree.Com

الیاس نواز

کہتے ہیں کہ کرسی فرعون ’’صاحب‘‘ کی ایجاد ہے۔ (کبیدہ خاطر نہ ہوں،صاحب اس لیے لگایا کہ آج کل’’والوں‘‘ کے نام کے ساتھ بھی لگتا ہے) جب سے دنیا میں کرسی آئی ہے اُس کا اور فرعونیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دیکھیے ناں! جب فرعون غرور و تکبر کی علامت بنا تو قدرت نے مرنے کے بعد اسے عبرت کی نشانی بنا دیا، مگر کرسی ویران نہیں رہی بلکہ اس کے بعد بھی کئی لوگ آئے، کرسی پر بیٹھے، اقتدار و اختیار کے نشے میں فرعونیت اختیار کی اور نشانِ عبرت بنتے چلے گئے بلکہ کچھ تو فرعون سے بھی آگے نکل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سے جب ایک صاحب مصر کے دورے میں فرعون کی لاش پر پہنچے تو لاش نے شرماتے ہوئے منہ پھیر لیا جیسے کہہ رہی ہو:

’’استادجی! یہاں آنے کی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی، آئینہ دیکھ لیتے!‘‘

قارئین! ہم کوشش کریں گے کہ آج کاف سے کرسی کے بارے میں انتہائی مستند معلومات آپ تک پہنچائیں۔

فرعون سے یاد آیا، ہماراحکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ کرسی کابینہ کی ہو یا کالے بازار کی، کرسی کرسی ہوتی ہے۔ ویسے اشرافیہ کو بھی کرسی کے ساتھ ساتھ کلرک، کاروبار (کوئلے کا)، کٹھ پتلی (کہلوانا)، کمیشن اور کارخانے بہت پسند ہیں۔

کاشانۂ کلیم والے کلیم صاحب کا مزاج بھی خاصا ’’کرسیانہ‘‘ ہے، اور کیوں نہ ہو کہ کافی عرصہ کرسی والے جو رہے ہیں۔ انھیں تو بس کشمیری کاٹھ کی کام دار کرسی پسند ہے جس پر وہ کریم کلر کی کاٹن کے کڑھائی والے کرتے پہن کر کشن سے ٹیک لگائے بیٹھتے ہیں۔

ارے صاحب! کرسی کی تو لت ہی عجیب ہے۔ اس کے اور بہت سے شوقین ہوں گے مگر جیسی کرن کمال صاحبہ ہیں کوئی نہیں۔ کرسی کے ساتھ ساتھ انھیں کتے اور کبوتر پالنے کا کا شوق بھی ہے جبکہ کالم،کہانی، کتب اور کلیات بھی ان کے نرالے شوق ہیں مگر کھانے میں صرف کباب، کچوری، کلیجی، کاجو، کشمش، کریلا، کدو، کچنار، کسٹرڈ اور کیک ہی پسند ہیں، ویسے وہ زیادہ نہیں کھاتیں۔

کرن اور کریلے سے یاد آیا کہ ماہر علمِ کرسیات کرسی کے مختلف ذائقے بیان کرتے ہیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کرسی کو کاٹنا شروع کر دیں کیونکہ کرسی کا ذائقہ چکھنے سے پتانہیں چلتا بلکہ یہ جاننے کے لیے دیکھیے کفیل کلیمی کی کلیات، جس میں وہ ’کرسی کے کمالات‘ کے عنوان میں لکھتے ہیں:

’’جس کرسی سے رشوت ملے وہ میٹھی، جس پر بیٹھ کر محنت کرنی پڑے وہ کھٹی یا ترش،جس پر بیٹھ کر حلال کمانا پڑے وہ پھیکی اور جس کرسی سے زبردستی اتارا جائے وہ کڑوی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو اپنی کرسی تو پھر کراری ہی ہوئی۔‘‘

بھئی ذکر چلے ذائقوں کا اور مربوں کی بات نہ ہو، بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم آپ کو ’’کرسی کا مربہ‘‘ بتاتے ہیں جو ہم نے انتہائی نایاب اور پرانی کتاب سے نکالا ہے۔ بہت عمدہ چیز ہے، نوٹ کر لیجیے:

’’کرسی کو کدو کش کرکے اچھی طرح تباہ کر لیجیے، پھر اُس کو کالے کیمیکل میں کانسی کے بڑے کڑھاؤ میں کسی قابل کالا کر لیجیے، پھر کلونجی، کالا گڑ اور کشمش یا کاجو ڈال کر کاغذ کی کٹوریوں میں کولھاپوری چپل کے ساتھ کوٹ کوٹ کر کرسی کے کسی پرانے یا زبردستی ہٹائے گئے مریض کو کسی بُرے وقت (بلکہ وقت بے وقت) دیجیے، امید ہے نہ صرف جلد افاقہ ہووے گا بلکہ مریض جلد ہی انتقال بھی فرماوے گا، آزمایا ہوا نسخہ ہے۔‘‘

کرسیات بلکہ ’’کرسی جات‘‘ کے ماہر اُس کے مختلف استعمال بھی بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کابینہ کی ہو تو سونے کے لیے، اسکول کی ہو تو کباڑیا کے لیے، جلسے کی ہوتو چرانے کے لیے، واپڈا کی ہوتو جلانے کے لیے، اس کے علاوہ اجلاس اور میٹنگ میں کرسیوں کا چلانے والا استعمال تو خیر بہت عام ہے ہی…!

یاد آیا، کریم خان نے اپنی کتاب میں علمی نکتے لکھے ہیں کہ ’’کرسی کے چارحرفوں کی مثال اس کے چار پا یوں کی سی ہے۔ اگر ایک بھی ہٹا دیا جائے تو کرسی کی کیا ہیئت بنتی ہے، دیکھیے:

٭کرسی کا ’’کاف‘‘ ہٹا دیں تو رسی رہ جاتی ہے جو یقینا ًصاحبِ کرسی کے لیے اچھی نہیں۔ گلے میں آئے تو مصیبت اور پاؤں میں اٹکے تو عذاب۔
٭’’ر‘‘ ہٹا دیں تو’’کسی‘‘ رہ جاتا ہے،اور کسی کا مطلب ہے نامعلوم، بس کرسی کا ’’ر‘‘ہٹتے ہی صاحب کرسی نامعلوم ہو جاتا ہے۔(ہر کسی کی کرسی کا’’ر‘‘ سلامت رہے)

٭اور اگر’’س‘‘ ہٹا دیں تو’’کری‘‘ رہ جاتی ہے۔آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کرسی کا ’’س‘‘ ہٹانے سے انسان کی’’ کری ‘‘بن جاتی ہے، جبکہ ’’ی‘‘ ہٹانے سے کرسی اور صاحب کرسی ایسے بے معنی ہوجاتے ہیں جیسے لفظ’’کرس‘‘

اب دیکھیے کہ اگر کرسی کے دو پائے توڑ دیے جائیں تو کیا ہوتا ہے؟

’’کرسی میں سے پہلے دو حرف ہٹا لیے جائیں تو’’سی‘‘ رہ جاتا ہے جس کا معنیٰ تکلیف اور مرچیں لگنے کے ہیں جبکہ آخری دو ہٹا لیے جائیں تو ’’کر‘‘بچتاہے۔ یعنی حکم ہے کہ ’’کچھ کر‘‘… ظاہر ہے آدھی کرسی چلی گئی تو حکم ہی ملے گا، اور اگر درمیان کے دو لفظ ہٹا لیے جائیں تو’’کی‘‘بچے گا جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں جب تک کسی دوسرے لفظ کے ساتھ نہ مل جائے۔ اور جب آدھی کرسی درمیان میں سے چلی جائے تو دوسرے الفاظ ملا کر جملہ یوں ہی بنے گا: خاطر کی،مدارت کی،منت کی،خوشامد کی وغیرہ۔

جبکہ دونوں طرف کا ایک ایک لفظ ہٹا دیا جائے تو باقی بچے گا’’رس‘‘۔ بس قارئین کرام! جس کی کرسی کے دونوں سرے غائب ہو جائیں تو اس کا رس ہی بن سکتا ہے۔اللہ محفوظ رکھے، بہت سوں کو ’’رس ‘‘ہوتے دیکھا۔۔۔!

کریم خان کے بڑے بھائی کبیرخان کی تو مثالیں بھی اپنی ہیں، جیسے:

٭’’ایک کلرک اوپر سے کرسی چڑھا۔
٭کافر کا کتا کشمیر کا نہ کشمور کا۔
٭کتاب کا کیڑا کرسی ڈھونڈے۔
٭کانچ کے کٹے کو کاغذ کیا کاٹے۔
٭جو نہ مانے کسی سے وہ مانے کرسی سے۔

کافر، کتے اور کشمیر سے یاد آیا کہ کرسی کی نیت تو ہم بھول ہی گئے: ’’نیت کرتاہوں کرسی پر بیٹھنے کی، خاص واسطے کرپشن کے!
اور قارئین! چونکہ نیت کا تعلق بھی آداب سے ہے اور اقوال زریں کا بھی ادب سے،تو اسی لیے ہم آپ کو ’’اقوال کرسی زریں‘‘ سناتے ہیں۔

٭کرسی کسی کو کمال کر دیتی ہے اور کسی کو کنگال کر دیتی ہے۔

٭کرسی کو ہمیشہ سائے میں رکھو، دھوپ پڑنے سے کرسی رنگ بدل لیتی ہے۔
٭کم ظرف کو کرسی سے دور رکھو اور کرسی کو کم بخت سے۔

٭کسی کی کرسی کو مت چھیڑو تاکہ کوئی تمھاری کرسی کو کچھ نہ کہے۔
٭کرسی کو کشکول کے قریب رکھو تاکہ وقت پڑنے پر دونوں ساتھ ملیں۔
٭کمزور دل کو کرسی سے اتنا ہی دور رکھو جتنا کہ کریلا کشمش سے۔

ادب کی بات کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ کرسی کا ذکر مشہور زمانہ شعرأ کے ضرب المثل شعروں میں آیا ہے مثلاً
کاش کہ کرسی کلام کرے
مجھ پر سواری انعام کرے
(انعام کرسوی)
کرسی سے کالے منہ کا بیوپار چلے
چلے بھی آؤ کہ کوئلوں کا کارروبار چلے
(کامل کرسی آبادی)
دل میں ایک کاف سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ کرسی گری ہے ابھی
(کرن کالا پانوی)
رنجش ہی سہی احسان ہی فرمانے کے لیے آ
آپھر سے مجھے کرسی پہ بٹھانے کے لیے آ
(کاظم لامکانپوری)

کنورصاحب ایک دن لیکچر دے رہے تھے: ’’کرسی سے کال کوٹھری تک‘‘

فرماتے ہیں: ’’کرسی اور کشتی کی مثال ایک جیسی ہے۔ جو کسی بھی وقت اور کسی بھی طرف اُلٹ سکتی ہے۔ یہ کسی کو توکہیں سے کہیں لے جاتی ہے اور کسی کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی۔ البتہ یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ جو کرسی کو کمبل ہوا تو کرسی بھی اس کو کفن ہوگئی۔ ظاہرہے جو کرسی کا اتنا وفادار

ہوتو اس کا بھی فرض بنتا ہے کہ عزت کے طور پر وہ اس کو سفید پوشاک پہنائے۔

کرسی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کرسی سے کنواں بھی تو کائنات محل بھی، کرسی سے کرتوت بھی تو کرشمہ بھی،کرسی سے کروڑ بھی تو کمر توڑ بھی،کرسی سے کشش بھی تو کشیدگی بھی، کرسی سے کرم بھی توکریا کرم بھی، کرسی سے کانپنابھی تو کرسی سے کرختگی بھی۔
٭٭٭